Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding Lying In Ambush)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2662.
سیدنا براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احد والے دن تیر اندازوں کے جتھے پر سیدنا عبداللہ بن جبیر ؓ کو امیر مقرر کیا، ان لوگوں کی تعداد پچاس تھی اور ان سے فرمایا تھا: ”اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں اچک رہے ہیں، تب بھی تم یہ جگہ نہ چھوڑنا حتیٰ کہ میں تمہیں کوئی پیغام بھیجوں۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے اور ہم ان کو روند رہے ہیں، تب بھی تم یہیں رہنا حتیٰ کہ میں تمہیں بلواؤں۔“ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ قسم اللہ کی! میں نے دیکھا ان کی عورتیں (پناہ کے لیے) پہاڑ پر چڑھ رہی تھیں۔ تو عبداللہ بن جبیر کے (تیر انداز) ساتھیوں نے کہا: غنیمت! اے قوم غنیمت! تمہارے ساتھی غالب آ گئے ہیں، تم کیا دیکھ رہے ہو؟ عبداللہ بن جبیر نے کہا: کیا تم بھول گئے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! ہم تو لوگوں کے ساتھ مل کر غنیمت جمع کریں گے۔ چنانچہ وہ چلے آئے، تو ان کے منہ پھیر دیے گئے اور شکست سے دوچار ہوئے۔
تشریح:
1۔ دشمن پر حملہ کرنے یا اپنے دفاع کےلئے مجاہدین کوکمین گاہ میں چھپنا یا چھپانا جائز اور نظم جہاد کا ایک اہم حصہ ہوتاہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پرواہ نہ کرنے اور مال کی حرص کا نتیجہ شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ جو اگرچہ عارضی تھی۔ اس لئے واجب ہے کہ انسان فرامین رسول ﷺ کو ہرحال میں اولیت اور اولیت دے تاکہ دنیا اور آخرت کی ہزیمت سے محفوظ رہے۔ 3۔ شرعی امیر کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اور سپہ سالار کی منصوبہ بندی کے احکام بلا چون وچرا ماننے چاہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح؛ عند الشيخين. وقد أخرجه البخاري وأبو عوانة وابن حبان في صحاحهم ، مع كونه من رواية السبيعي، وكان اختلط !) . إسناده: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي: ثنا زهير: ثنا أبو إسحاق قال: سمعت البراء يحدث قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه البخاري كما يأتي، مع أن أئمة الجرح قد ذكروا في ترجمة أبي إسحاق- وهو السبِيعي- أنه كان اختلط، وأن زهيراً روى عنه بعد الاختلاط كما تقدم قريباً! فلعل البخاري وقف له على طريق أخرى من رواية مثل شعبة الذي روى عنه قبل الاختلاط، أو على شاهد يقويه؛ كالذي سأذكره. والله أعلم. والحديث أخرجه أبو عوانة (4/303- 306) من طرق أخرى عن النفيلي... به أتم منه. ثم أخرجه هو، والبخاري (4/26- 27 و 5/171) ، والبيهقي في الدلائل (3/269) وسعيد بن منصور (2/3/332-333) من طرق أخرى عن زهير... به. وقال الطيالسي (725) : حدثنا زهير... به. وكذلك رواه أحمد (4/294) ، وابن سعد (2/47) من طرق عن زهير. وتابعه إسرائيل عن أبي إسحاق... به: أخرجه البخاري (5/29) ، وأبو عوانة، وأحمد (4/293) ، والبيهقي (3/267) ، وابن حبان (4718) . وله شاهد من حديث ابن عباس... نحوه. أخرجه أحمد (1/287) بإسناد حسن، وصححه الحاكم (2/296- 297) ، ووافقه الذهبي. وآخر من حديث ابن مسعود. أخرجه أحمد (1/463) ، ورجاله ثقات.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احد والے دن تیر اندازوں کے جتھے پر سیدنا عبداللہ بن جبیر ؓ کو امیر مقرر کیا، ان لوگوں کی تعداد پچاس تھی اور ان سے فرمایا تھا: ”اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں اچک رہے ہیں، تب بھی تم یہ جگہ نہ چھوڑنا حتیٰ کہ میں تمہیں کوئی پیغام بھیجوں۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے اور ہم ان کو روند رہے ہیں، تب بھی تم یہیں رہنا حتیٰ کہ میں تمہیں بلواؤں۔“ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ قسم اللہ کی! میں نے دیکھا ان کی عورتیں (پناہ کے لیے) پہاڑ پر چڑھ رہی تھیں۔ تو عبداللہ بن جبیر کے (تیر انداز) ساتھیوں نے کہا: غنیمت! اے قوم غنیمت! تمہارے ساتھی غالب آ گئے ہیں، تم کیا دیکھ رہے ہو؟ عبداللہ بن جبیر نے کہا: کیا تم بھول گئے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! ہم تو لوگوں کے ساتھ مل کر غنیمت جمع کریں گے۔ چنانچہ وہ چلے آئے، تو ان کے منہ پھیر دیے گئے اور شکست سے دوچار ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ دشمن پر حملہ کرنے یا اپنے دفاع کےلئے مجاہدین کوکمین گاہ میں چھپنا یا چھپانا جائز اور نظم جہاد کا ایک اہم حصہ ہوتاہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پرواہ نہ کرنے اور مال کی حرص کا نتیجہ شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ جو اگرچہ عارضی تھی۔ اس لئے واجب ہے کہ انسان فرامین رسول ﷺ کو ہرحال میں اولیت اور اولیت دے تاکہ دنیا اور آخرت کی ہزیمت سے محفوظ رہے۔ 3۔ شرعی امیر کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اور سپہ سالار کی منصوبہ بندی کے احکام بلا چون وچرا ماننے چاہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
براء ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر ؓ کو تیر اندازوں کا امیر بنایا ان کی تعداد پچاس تھی اور فرمایا: ”اگر تم دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے ہیں پھر بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے، انہیں روند ڈالا ہے، پھر بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا، یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی اور اللہ کی قسم میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھنے لگیں، عبداللہ بن جبیر کے ساتھی کہنے لگے: لوگو! غنیمت، غنیمت، تمہارے ساتھی غالب آ گئے تو اب تمہیں کس چیز کا انتظار ہے؟ اس پر عبداللہ بن جبیر ؓ نے کہا: کیا تم وہ بات بھول گئے جو تم سے رسول اللہ ﷺ نے کہی ہے؟ تو ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ضرور مشرکین کے پاس جائیں گے اور مال غنیمت لوٹیں گے، چنانچہ وہ ہٹ گئے تو اللہ نے ان کے منہ پھیر دئیے اور وہ شکست کھا کر واپس آئے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al bara’ bin Azib said “On the day of the battle of Uhud the Apostle of Alah('Abdullah) appointed ‘Abd Allah bin Jubair commander of the archers who were fifty(in number). He said “If you see that the birds are snatching at us, do not move from this place of yours until I send for you and if you see that we defeated the people (the enemy) and trod them down, do not move until I send for you. Allah then defeated them. He (narrator) said “I swear by Allah, I saw women ascending the mountain. The companions of ‘Abd Allah bin Jubair said “Booty, O People, booty! Your companions vanquished, for what are you waiting”? ‘Ad Allaah bin Jubair said “Have you forgotten what the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) had told you?” They said “We swear by Allaah. We shall come to the people and get the booty. So they came to them. Their faces were turned and they came defeated”.