Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Urinating In Al-Mustaham (The Bathing Area))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
27.
سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص غسل خانے میں ہرگز پیشاب نہ کرے۔ کہ بعد میں وہ وہیں نہائے گا۔‘‘ احمد روایت کرتے ہیں: پھر وہ وہیں وضو کرے گا، کیونکہ اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔
تشریح:
فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے، البتہ اگلی حدیث صحیح ہے جو اسی کے ہم معنیٰ ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف، وقد أشار إلى ذلك الترمذي بقوله: حديث غريب ) . إسناده: حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل والحسن بن علي قالا: ثنا عبد الرزاق- قال أحمد-: ثنا معمر: أخبرني أشعث- وقال الحسن: عن أشعث- ابن عبد الله عن الحسن. والرواية الثانية هي رواية أحمد. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات ؛ ولكن له علة خفية؛ وهي عنعنة الحسن- وهو البصري-، فقد كان مدلساً، قال الحافظ في التقريب : ثقة فقيه فاضل مشهور، وكان يرسل كثيرا ويدلس . وقال للذهبي في الميزان : كان الحسن البصري كثير التدليس، فإذا قال في حديث: عن فلان؛ ضعف احتجاجه، ولا سيما عمن قيل: إنه لم يسمع منهم، كأبي هريرة ونحوه . وهو- وإن كانوا قد ذكروا له سماعاً من عبد الله بن مغفل-؛ فليس معنى ذلك أن كل حديث له عنه موصول سمعه منه، بل لا بد من تصريحه بالسماع من كل صحابي يروي عنه، ليكون حجة خالياً من علة. هذا هو الذي يقتضيه علم مصطلح الحديث.فلا يُغتر بتتابع الناس بالاحتجاج بحديثه دونما نظر إلى تدليسه الذي اعترف به الأئمة المتقدمون والمتأخرون! والحديث في المسند (5/56) . ورواه النسائي والترمذي وابن ماجه والحاكم عن أشعث... به. وقال الحاكم: صحيح على شرطهما ! ووافقه الذهبي ! وهو من أوهامهما؛ لأن أشعث بن عبد الله لم يخرج له الشيخان، وإنما أخرج له البخاري تعليقاً. وفيه عنعنة الحسن، وهو مما يضعف الاحتجاج بحديثه- بشهادة الذهبي نفسه كما سلف-.
ومنه تعلم أن قول المنذري في الترغيب : إسناده صحيح متصل ! ليس بصحيح، وقد أشار إلى ذلك مخرجه الترمذي حيث قال إنه: حديث غريب .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص غسل خانے میں ہرگز پیشاب نہ کرے۔ کہ بعد میں وہ وہیں نہائے گا۔‘‘ احمد روایت کرتے ہیں: پھر وہ وہیں وضو کرے گا، کیونکہ اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے، البتہ اگلی حدیث صحیح ہے جو اسی کے ہم معنیٰ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مغفل ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص ہرگز ایسا نہ کرے کہ اپنے غسل خانے (حمام) میں پیشاب کرے پھر اسی میں نہائے۔‘‘ احمد کی روایت میں ہے: پھر اسی میں وضو کرے، کیونکہ اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Mughaffal (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said: No one of you should make water in his bath and then wash himself there (after urination). The version of Ahmad has: Then performs ablution there, for evil thoughts come from it.