باب: امام اگر مناسب سمجھے تو قاتل کو مقتول کے کچھ ( سلب ) سے محروم کر سکتا ہے ۔ اور یہ بیان کہ گھوڑا اور اسلحہ ” سلب “ میں شمار ہو گا
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding The Imam Denying The Spoils (Salab To The Person Who Killed, If He Sees Fit To, And The Horse And Weapon Are Parts Of The Spoils (Salab))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2719.
سیدنا عوف بن مالک اشجعی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا زید بن حارثہ ؓ کے ساتھ غزوہ موتہ میں روانہ ہوا۔ اہل یمن سے جو کمک ہمیں ملی ان میں سے ایک شخص میرے ساتھ ہو لیا۔ اس کے پاس سوائے ایک تلوار کے اور کچھ نہ تھا۔ مسلمانوں کے ایک آدمی نے اونٹ ذبح کیا، تو اس آدمی نے ذبح کرنے والے سے کھال کا ایک حصہ مانگا جو اس نے اس کو دے دیا۔ پس اس نے اس کو ڈھال کی طرح بنا لیا اور پھر ہم چلتے رہے۔ ہمیں رومی جماعتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ان میں ایک آدمی اپنے سرخ گھوڑے پر سوار تھا جس کی زین اور ہتھیار سنہری تھے۔ وہ رومی مسلمانوں پر بڑے سخت حملے کر رہا تھا۔ تو یمن کی کمک والا یہ آدمی ایک چٹان کی اوٹ میں اس رومی کی تاک میں بیٹھ گیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو اس یمنی نے اس کے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں تو وہ (رومی) گر پڑا اور یہ (یمنی) خود اس آدمی پر چڑھ بیٹھا اور اسے قتل کر دیا اور اس کا گھوڑا اور اسلحہ لے لیا۔ اور جب اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی تو سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اس یمنی کو بلوایا اور اس کے اسباب میں سے کچھ لے لیا۔ سیدنا عوف ؓ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور کہا: اے خالد! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ ہے کہ سلب قاتل کا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ لیکن میں اسے بہت زیادہ سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا: یا تو آپ اسے واپس کر دیں ورنہ میں آپ کی یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتاؤں گا، مگر انہوں نے اس کو واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ سیدنا عوف ؓ کہتے ہیں پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں جمع ہوئے، تو میں نے آپ ﷺ سے اس یمنی کا قصہ بیان کیا اور وہ بھی جو خالد ؓ نے کیا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خالد! اس کی کیا وجہ تھی جو تم نے کیا؟“ انہوں نے کہا: اے ﷲ کے رسول! میں نے اس سلب کو بہت زیادہ سمجھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے جو کچھ اس سے لیا وہ اس کو واپس کر دو۔“ عوف کہتے ہیں میں نے خالد سے کہا: خالد! لو اب میں نے جو بات کہی تھی پوری کر دی؟ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’وہ کیا بات تھی؟“ میں نے انہیں بتا دی، تو رسول اﷲ ﷺ غصے ہو گئے اور فرمایا: ”خالد! وہ مت واپس کرو، کیا تم لوگ میری خاطر میرے امراء سے کوئی رعایت نہیں کر سکتے؟ (یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ) ان کے معاملات کی عمدگی اور بھلائی تو تمہارے لیے ہو اور اس کی خرابی کے وہ ہی ذمہ دار ہوں۔“
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا عوف بن مالک اشجعی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا زید بن حارثہ ؓ کے ساتھ غزوہ موتہ میں روانہ ہوا۔ اہل یمن سے جو کمک ہمیں ملی ان میں سے ایک شخص میرے ساتھ ہو لیا۔ اس کے پاس سوائے ایک تلوار کے اور کچھ نہ تھا۔ مسلمانوں کے ایک آدمی نے اونٹ ذبح کیا، تو اس آدمی نے ذبح کرنے والے سے کھال کا ایک حصہ مانگا جو اس نے اس کو دے دیا۔ پس اس نے اس کو ڈھال کی طرح بنا لیا اور پھر ہم چلتے رہے۔ ہمیں رومی جماعتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ان میں ایک آدمی اپنے سرخ گھوڑے پر سوار تھا جس کی زین اور ہتھیار سنہری تھے۔ وہ رومی مسلمانوں پر بڑے سخت حملے کر رہا تھا۔ تو یمن کی کمک والا یہ آدمی ایک چٹان کی اوٹ میں اس رومی کی تاک میں بیٹھ گیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو اس یمنی نے اس کے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں تو وہ (رومی) گر پڑا اور یہ (یمنی) خود اس آدمی پر چڑھ بیٹھا اور اسے قتل کر دیا اور اس کا گھوڑا اور اسلحہ لے لیا۔ اور جب اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی تو سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اس یمنی کو بلوایا اور اس کے اسباب میں سے کچھ لے لیا۔ سیدنا عوف ؓ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور کہا: اے خالد! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ ہے کہ سلب قاتل کا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ لیکن میں اسے بہت زیادہ سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا: یا تو آپ اسے واپس کر دیں ورنہ میں آپ کی یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتاؤں گا، مگر انہوں نے اس کو واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ سیدنا عوف ؓ کہتے ہیں پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں جمع ہوئے، تو میں نے آپ ﷺ سے اس یمنی کا قصہ بیان کیا اور وہ بھی جو خالد ؓ نے کیا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خالد! اس کی کیا وجہ تھی جو تم نے کیا؟“ انہوں نے کہا: اے ﷲ کے رسول! میں نے اس سلب کو بہت زیادہ سمجھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے جو کچھ اس سے لیا وہ اس کو واپس کر دو۔“ عوف کہتے ہیں میں نے خالد سے کہا: خالد! لو اب میں نے جو بات کہی تھی پوری کر دی؟ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’وہ کیا بات تھی؟“ میں نے انہیں بتا دی، تو رسول اﷲ ﷺ غصے ہو گئے اور فرمایا: ”خالد! وہ مت واپس کرو، کیا تم لوگ میری خاطر میرے امراء سے کوئی رعایت نہیں کر سکتے؟ (یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ) ان کے معاملات کی عمدگی اور بھلائی تو تمہارے لیے ہو اور اس کی خرابی کے وہ ہی ذمہ دار ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عوف بن مالک اشجعی ؓ کہتے ہیں کہ میں زید بن حارثہ ؓ کے ساتھ غزوہ موتہ میں نکلا تو اہل یمن میں سے ایک مددی میرے ساتھ ہو گیا، اس کے پاس ایک تلوار کے سوا کچھ نہ تھا، پھر ایک مسلمان نے کچھ اونٹ ذبح کئے تو مددی نے اس سے تھوڑی سی کھال مانگی، اس نے اسے دے دی، مددی نے اس کھال کو ڈھال کی شکل کا بنا لیا، ہم چلے تو رومی فوجیوں سے ملے، ان میں ایک شخص اپنے سرخ گھوڑے پر سوار تھا، اس پر ایک سنہری زین تھی، ہتھیار بھی سنہرا تھا، تو رومی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے اکسانے لگا تو مددی اس سوار کی تاک میں ایک چٹان کی آڑ میں بیٹھ گیا، وہ رومی ادھر سے گزرا تو مددی نے اس کے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے، وہ گر پڑا، اور مددی اس پر چڑھ بیٹھا اور اسے قتل کر کے گھوڑا اور ہتھیار لے لیا، پھر جب اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی تو خالد بن ولید ؓ نے مددی کے پاس کسی کو بھیجا اور سامان میں سے کچھ لے لیا۔ عوف ؓ کہتے ہیں: تو میں خالد ؓ کے پاس آیا اور میں نے کہا: خالد! کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے قاتل کے لیے سلب کا فیصلہ کیا ہے؟ خالد ؓ نے کہا: کیوں نہیں، میں جانتا ہوں لیکن میں نے اسے زیادہ سمجھا، تو میں نے کہا: تم یہ سامان اس کو دے دو، ورنہ میں رسول اللہ ﷺ سے اس معاملہ کو ذکر کروں گا، لیکن خالد ؓ نے لوٹانے سے انکار کیا۔ عوف ؓ کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس اکٹھا ہوئے تو میں نے آپ سے مددی کا واقعہ اور خالد ؓ کی سلوک بیان کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خالد! تم نے جو یہ کام کیا ہے اس پر تمہیں کس چیز نے آمادہ کیا؟“ خالد نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اسے زیادہ جانا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خالد! تم نے جو کچھ لیا تھا واپس لوٹا دو۔“ عوف ؓ کہتے ہیں میں نے کہا: خالد! کیا میں نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہ کیا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کیا ہے؟“ عوف ؓ کہتے ہیں: میں نے اسے آپ سے بتایا۔ عوف کہتے ہیں: تو رسول اللہ ﷺ غصہ ہو گئے، اور فرمایا: ”خالد! واپس نہ دو، کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میرے امیروں کو چھوڑ دو کہ وہ جو اچھا کام کریں اس سے تم نفع اٹھاؤ اور بری بات ان پر ڈال دیا کرو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Awf bin Malik Al Ashja’ I said: I went out with Zaid bin Harith in the battle of Mutah. For the reinforcement of the Muslim army a man from the people of Yemen accompanied me. He had only his sword with him. A man from the Muslims slaughtered a Camel. The man for the reinforcement asked him for a part of its skin which he gave him. He made it like the shape of a shield. We went on and met the Byzantine armies. There was a man among them on a reddish horse with a golden saddle and golden weapons. This Byzantinian soldiers began to attack the Muslims desperately. The man for reinforcement sat behind a rock for (attacking) him. He hamstrung his horse and overpowered him and then killed him. He took his horse and weapons. When Allah, Most High, bestowed victory on the Muslims. Khalid bin Al Walid sent for him and took his spoils. ‘Awf said “I came to him and said “Khalid, do you know that the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) had decided to give spoils to the killer? He said “Yes, I thought it abundant. I said “You should return it to him, or I shall tell you about it before the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). But he refused to return it. ‘Awf said “We then assembled with the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). I told him the story of the man of reinforcement and what Khalid had done. The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said “Khalid, what made you do the work you have done”? He said “Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), I considered it to be abundant. The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said “Khalid, return it to him what you have taken from him”. ‘Awf said “I said to him “here you are, Khalid. Did I not keep my word? The Apostle of Allah (ﷺ) said “What is that? I then informed him”. He said “The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) became angry and said “Khalid, do not return it to him. Are you going to leave my commanders? You may take from them what is best for you and eave to them what is worst.