Abu-Daud:
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
(Chapter: What Has Been Reported Regarding The Obligation Of The Sacrifices)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2788.
سیدنا مخنف بن سلیم ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں وقوف کیے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! بیشک ہر گھر والوں پر ہر سال قربانی ہے اور عتیرہ، کیا جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟ یہی جسے لوگ «رجبية» کہتے ہیں۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں عتیرہ (یعنی «رجبية») منسوخ ہے اور یہ حدیث منسوخ ہے۔
تشریح:
1۔ اس حدیث سے(عتیرة) کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ جب کہ آگے حدیث (2831) سے اس کے جواز کی نفی ہوتی ہے۔ اور یہی بات راحج ہے۔
2۔ اس حدیث سے بظاہر قربانی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے دلائل سے اس کا استحباب واستنان معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے محدثین نے ان سارے دلائل کوسامنے رکھتے ہوئے ہوئے فیصلہ کیا ہے۔ کہ قربانی سنت موکدہ ہے۔ یعنی ایک اہم اور موکد حکم ہے۔ لیکن فرض نہیں۔ تاہم استطاعت کے باوجود اس سنت موکد ہ سے گریز کسی طرح بھی صحیح نہیں۔
(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
سیدنا مخنف بن سلیم ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں وقوف کیے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! بیشک ہر گھر والوں پر ہر سال قربانی ہے اور عتیرہ، کیا جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟ یہی جسے لوگ «رجبية» کہتے ہیں۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں عتیرہ (یعنی «رجبية») منسوخ ہے اور یہ حدیث منسوخ ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے(عتیرة) کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ جب کہ آگے حدیث (2831) سے اس کے جواز کی نفی ہوتی ہے۔ اور یہی بات راحج ہے۔
2۔ اس حدیث سے بظاہر قربانی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے دلائل سے اس کا استحباب واستنان معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے محدثین نے ان سارے دلائل کوسامنے رکھتے ہوئے ہوئے فیصلہ کیا ہے۔ کہ قربانی سنت موکدہ ہے۔ یعنی ایک اہم اور موکد حکم ہے۔ لیکن فرض نہیں۔ تاہم استطاعت کے باوجود اس سنت موکد ہ سے گریز کسی طرح بھی صحیح نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مخنف بن سلیم ؓ کہتے ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! (سن لو) ہر سال ہر گھر والے پر قربانی اور «عتیرہ» ہے۱؎ کیا تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو لوگ «رجبیة» کہتے ہیں۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: «عتیرہ» منسوخ ہے، یہ ایک منسوخ حدیث ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: «عتیرہ» وہ ذبیحہ ہے جو اوائل اسلام میں رجب کے پہلے عشرہ میں ذبح کیا جاتا تھا، اسی کا دوسرا نام «رجبیة» بھی تھا، بعد میں «عتیرہ» منسوخ ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mikhnaf ibn Sulaym: We were staying with the Apostle of Allah (ﷺ) at Arafat; he said: O people, every family must offer a sacrifice and an atirah. Do you know what the atirah is? It is what you call the Rajab sacrifice.