Abu-Daud:
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
(Chapter: Regarding The Animals Slaugthered By The People Of Book)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2817.
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے {فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ} ”کھاؤ وہ چیزیں جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔“ اور اگلی آیت میں ہے: {وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ} ”وہ چیزیں مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔“ اسے منسوخ کر کے (اہل کتاب کے طعام کو ہمارے لیے حلال کر دیا گیا اور) فرمایا: {وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ} ”جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے ان کا طعام تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا طعام ان کے لیے حلال ہے۔“
تشریح:
1۔ ان آیات میں طعام اور چیزوں سے مراد بالخصوص حلال ذبح شدہ جانور ہی ہیں۔
2۔ جو اپنی موت مرے یا ذبح کے وقت عمداً نام نہ لیا جائے۔ تو وہ مردار اور حرام ہے۔ (مچھلی اور ٹڈی کا استثناء معلوم ومعروف ہے۔)
3۔ اہل کتاب جب اپنے شرعی انداز میں ذبح کریں۔ تو ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ بخلاف مجوسیوں اور ہندوں وغیرہ کے الا یہ کہ واضح ہوجائے کہ اہل کتاب نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہے۔ یا ذبح ہی نہیں کیا۔ جیسے آج کل یورپ میں ذبح کرنے کی بجائے مشینی جھٹکے سے جانور کو مارا جاتا ہے۔ یہ سراسر غیر شرعی طریقہ ہے۔ جس سے جانور مردار کے حکم میں ہوجاتا ہے۔جس کا کھانا جائز نہیں۔ ملحوظہ۔ یہ روایت ضعیف ہے۔ اور بعض کے نزدیک اس میں صرف یہودیوں کا ذکر صحیح نہیں۔ بلکہ مشرکوں نے یہ اعتراض کیا تھا اور مذکورہ جواب نازل ہوا۔
(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
<قرآن> سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے {فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ} ”کھاؤ وہ چیزیں جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔“ اور اگلی آیت میں ہے: {وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ} ”وہ چیزیں مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔“ اسے منسوخ کر کے (اہل کتاب کے طعام کو ہمارے لیے حلال کر دیا گیا اور) فرمایا: {وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ} ”جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے ان کا طعام تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا طعام ان کے لیے حلال ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ ان آیات میں طعام اور چیزوں سے مراد بالخصوص حلال ذبح شدہ جانور ہی ہیں۔
2۔ جو اپنی موت مرے یا ذبح کے وقت عمداً نام نہ لیا جائے۔ تو وہ مردار اور حرام ہے۔ (مچھلی اور ٹڈی کا استثناء معلوم ومعروف ہے۔)
3۔ اہل کتاب جب اپنے شرعی انداز میں ذبح کریں۔ تو ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ بخلاف مجوسیوں اور ہندوں وغیرہ کے الا یہ کہ واضح ہوجائے کہ اہل کتاب نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہے۔ یا ذبح ہی نہیں کیا۔ جیسے آج کل یورپ میں ذبح کرنے کی بجائے مشینی جھٹکے سے جانور کو مارا جاتا ہے۔ یہ سراسر غیر شرعی طریقہ ہے۔ جس سے جانور مردار کے حکم میں ہوجاتا ہے۔جس کا کھانا جائز نہیں۔ ملحوظہ۔ یہ روایت ضعیف ہے۔ اور بعض کے نزدیک اس میں صرف یہودیوں کا ذکر صحیح نہیں۔ بلکہ مشرکوں نے یہ اعتراض کیا تھا اور مذکورہ جواب نازل ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ: {فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ} ”سو جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ“ (سورة الأنعام : ۱۱۸){وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ} ”اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔“ (سورة الأنعام: ۱۲۱) تو یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے، اس میں سے اہل کتاب کے ذبیحے مستثنیٰ ہو گئے ہیں (یعنی ان کے ذبیحے درست ہیں)، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ} ”اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔“ (سورة المائدہ: ۵)
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): Explaining the verse "But the evil ones ever inspire their friend to contend with you". They used to say: Do not eat which Allah killed, but eat which you slaughtered. So Allah revealed the verse: "Eat not of (meats) on which Allah's name hath not been pronounced"…to the end of the verse.