Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Those Who Narrated That She Should Not Leave The Prayer After Her Menses Finish)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
282.
جناب عروہ، سیدہ عائشہ ؓ سے راوی ہیں، انھوں نے کہا کہ فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں اور کہا میں ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ ہوتا ہے اور پاک نہیں ہوتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”یہ ایک رگ (کا خون ہوتا) ہے، حیض نہیں۔ جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دیا کرو اور جب ختم ہو جائے تو اپنے سے خون کو دھوو اور نماز پڑھو۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وأبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا أحمد بن يونس وعبد الله بن محمد النفيلي قالا: ثنا زهير... به. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث أخرجه البخاري (1/340) قال: حدثنا أحمد بن يونس عن زهير... به مختصراً. قال الحافظ: وقد أخرجه أبو نعيم في المستخرج من طريقه تاماً . وهكذا بتمامه: أخرجه البخاري أيضا (1/264 و 334 و 338) ، ومسلم (1/180) ، وأبو عوانة (1/319) ، والنسائي (1/43 و 45 و 65) ، والترمذي (1/217- 219) ، والدارمي (1/198) ، وابن ماجه (1/214) ، والطحاوي (1/61- 62) ، والدارقطني (ص 76) ، والبيهقي (1/116 و 323 و 330 و 343) ، وأحمد (6/194) من طرق كثيرة عن هشام بن عروة... به. وزاد البخاري في آخره، وكذا الترمذي والدارقطني: قال هشام: قال أبي: ... ثم توضّئي لكل صلاة حتى يجيء ذلك الوقت . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وعي عندهم من طريق أبي معاوية. وهي أيضا عند الطحاوي من طريق أبي حنيفة. وعند ابن حبان في صحيحه - كما في نصب الراية (1/203) - من طريق أبي حمزة. وعنده أيضا- كما في المصدر المذكور (1/202) - وعند الطحاوي في كتاب الرد على الكرابيسي - كما في الجوهر النقي (1/343- 344) - من طريق أبي عوانة؛ كلهم عن هشام... به؛ دون قوله: حتى يجيء ذلك الوقت . وهي أيضا عند النسائي والبيهقي من حديث حماد بن زيد؛ وهو عند مسلم؛ ولكنه لم يسق لفظه. وعند الدارمي والطحاوي من حديث حماد بن سلمة؛ كلاهما عن هشام... به مختصراً بلفظ: وتوضّئي . وقد أعل النسائي- ثم البيهقي- هذه الزيادة بتفرد حماد بن زيد بها! ويرد ذلك ما سبق من المتابعات، فلا نطيل الكلام بالرد عليهما! وقد كفانا مؤنة ذلك ابن التركماني في الرد على البيهقي ، ثم الحافظ ابن حجر وغيرهما. ولهذه الزيادة شواهد؛ فانظر ما سيأتي (رقم 312 و 313) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عروہ، سیدہ عائشہ ؓ سے راوی ہیں، انھوں نے کہا کہ فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں اور کہا میں ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ ہوتا ہے اور پاک نہیں ہوتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”یہ ایک رگ (کا خون ہوتا) ہے، حیض نہیں۔ جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دیا کرو اور جب ختم ہو جائے تو اپنے سے خون کو دھوو اور نماز پڑھو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: میں ایک ایسی عورت ہوں جس کو برابر استحاضہ کا خون آتا ہے، کبھی پاک نہیں رہتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو صرف ایک رگ ہے، حیض نہیں ہے، تم کو حیض آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب وہ ختم ہو جائے تو خون دھو لو، پھر (غسل کر کے) نماز پڑھ لو.“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Urwah reported on the authority of 'Aishah (RA): Fatimah (RA) daughter of Abu Hubaish came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: I am a woman who has prolonged flow of blood; I am never purified; should I abandon prayer? He replied: This is (due to) a vein, and not menstruation. When the menstruation begins, you should abandon prayer; when it is finished, you should wash away the blood and pray.