Abu-Daud:
Game (Kitab Al-Said)
(Chapter: Using A Dog For Hunting And Other Than That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2846.
سیدنا جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے (ابتدائی ایام میں) کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا حتیٰ کہ اگر کوئی عورت دیہات سے آتی اور اس کے ساتھ کتا ہوتا تو ہم اسے بھی قتل کر ڈالتے تھے، اس کے بعد آپ ﷺ نے ہمیں اس سے منع کر دیا اور فرمایا: ”صرف کالے کتوں کو مارو۔“
تشریح:
کالا کتا اور بالخصوص وہ جس کی آنکھوں پر دو نقطے سے ہوں۔ اسے شیطان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لئے اسے مارنے کا حکم ہے۔ اگر کسی آبادی میں عام کتے بڑھ جایئں اور لوگوں کے لئے اذیت کا باعث ہوں۔ تو ان کو قتل کرنا اور کم کرنا بھی جائز ہے، لیکن بالکل فنا کر دینا بھی جائز نہیں۔
٭شکار کی لغوی اور اصطلاحی تعریف :لغت میں شکار کو ’’الصيد‘‘ کہتے ہیں اور یہ صَادَ يَصيدُ سے مصدر ہے‘جس کے معنی پکڑنے اور حاصل کرنے کے ہیں۔اصطلاح میں’’الصيد‘‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے۔(أَخُذُ مُبَاحٍ أكْلُه غَيْرَ عَلَيهِ مِنْ وَحْشِ أوْ طَيْرٍ أوْ حَيْوانِ بَرٍّ أوْ بَحْرٍ بِقَصْدٍ)’’ایسے وحشی جانور یا پرندے کو ارادتاً یا شکار کرنا‘ جو انسانوں کی دسترس میں نہ ہوں اور جن کا کھانا حلال ہو۔‘‘
٭شکار کی مشروعیت :شکار کرنا حلال اور جائز ہے۔ شریعت مطہرہ نے اس کی اجازت دی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ)(المائدۃ:4) ’’ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ تمام پاک چیزیں تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنھیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمھیں دے رکھی ہے‘ پس جس شکار کو وہ تمھارے لیے پکڑ کر روک رکھیں ، تو تم اس سے کھا لو ۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر لیا کرو۔اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ شکار کی بابت رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ المُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ ثُمَّ كُلْ)(صحيح البخارى ~الذبائح والصيد.باب ماجا ء فى التصيد. حديث:5488) ’’اور جو تم سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کرو‘ تو اس پر اللہ کا نام ذکر کرو پھر کھا لو۔‘‘
٭شکار کے متعلق چند ضروری آداب و احکام:1 سمندری شکار مُحرِم اور غیر مُحرم دونوں شخص کر سکتے ہیں ۔جبکہ محرم کے لیے بَرّی (خشکی کا) شکار کرنا ناجائز ہے۔2 شکار کے لیے کتا چھوڑتے وقت یا فائر کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔3 شکار کے لیے آلہ تیز دھار ہونا چاہیے جیسے تیر‘گولی یا نیزا وغیرا ۔ اگر شکار چوٹ لگنے سے مر گیا تو اس کا کھانا حلال نہیں ہوگا 4 اگر کتے کے ذریعے سے شکار کیا جائے تو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ غیر سدھائے ہوئے کتے شریک نہ ہوئے ہوں ۔5 اگر کتے نے شکار میں سے کچھ کھا لیا تو اسے کھانا درست نہیں۔
سیدنا جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے (ابتدائی ایام میں) کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا حتیٰ کہ اگر کوئی عورت دیہات سے آتی اور اس کے ساتھ کتا ہوتا تو ہم اسے بھی قتل کر ڈالتے تھے، اس کے بعد آپ ﷺ نے ہمیں اس سے منع کر دیا اور فرمایا: ”صرف کالے کتوں کو مارو۔“
حدیث حاشیہ:
کالا کتا اور بالخصوص وہ جس کی آنکھوں پر دو نقطے سے ہوں۔ اسے شیطان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لئے اسے مارنے کا حکم ہے۔ اگر کسی آبادی میں عام کتے بڑھ جایئں اور لوگوں کے لئے اذیت کا باعث ہوں۔ تو ان کو قتل کرنا اور کم کرنا بھی جائز ہے، لیکن بالکل فنا کر دینا بھی جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کتوں کے مارنے کا حکم دیا یہاں تک کہ کوئی عورت دیہات سے اپنے ساتھ کتا لے کر آتی تو ہم اسے بھی مار ڈالتے، پھر آپ ﷺ نے کتوں کو مارنے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ صرف کالے کتوں کو مارو۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn 'Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) of Allah (ﷺ) ordered to kill dogs, and we were even killing a dog which a woman brought with her from the desert. Afterwards he forbade to kill them, saying: Confine yourselves to the type which is black.