٭شکار کی لغوی اور اصطلاحی تعریف :لغت میں شکار کو ’’الصيد‘‘ کہتے ہیں اور یہ صَادَ يَصيدُ سے مصدر ہے‘جس کے معنی پکڑنے اور حاصل کرنے کے ہیں۔اصطلاح میں’’الصيد‘‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے۔(أَخُذُ مُبَاحٍ أكْلُه غَيْرَ عَلَيهِ مِنْ وَحْشِ أوْ طَيْرٍ أوْ حَيْوانِ بَرٍّ أوْ بَحْرٍ بِقَصْدٍ)’’ایسے وحشی جانور یا پرندے کو ارادتاً یا شکار کرنا‘ جو انسانوں کی دسترس میں نہ ہوں اور جن کا کھانا حلال ہو۔‘‘
٭شکار کی مشروعیت :شکار کرنا حلال اور جائز ہے۔ شریعت مطہرہ نے اس کی اجازت دی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ)(المائدۃ:4) ’’ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ تمام پاک چیزیں تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنھیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمھیں دے رکھی ہے‘ پس جس شکار کو وہ تمھارے لیے پکڑ کر روک رکھیں ، تو تم اس سے کھا لو ۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر لیا کرو۔اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ شکار کی بابت رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ المُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ ثُمَّ كُلْ)(صحيح البخارى ~الذبائح والصيد.باب ماجا ء فى التصيد. حديث:5488) ’’اور جو تم سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کرو‘ تو اس پر اللہ کا نام ذکر کرو پھر کھا لو۔‘‘
٭شکار کے متعلق چند ضروری آداب و احکام:1 سمندری شکار مُحرِم اور غیر مُحرم دونوں شخص کر سکتے ہیں ۔جبکہ محرم کے لیے بَرّی (خشکی کا) شکار کرنا ناجائز ہے۔2 شکار کے لیے کتا چھوڑتے وقت یا فائر کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔3 شکار کے لیے آلہ تیز دھار ہونا چاہیے جیسے تیر‘گولی یا نیزا وغیرا ۔ اگر شکار چوٹ لگنے سے مر گیا تو اس کا کھانا حلال نہیں ہوگا 4 اگر کتے کے ذریعے سے شکار کیا جائے تو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ غیر سدھائے ہوئے کتے شریک نہ ہوئے ہوں ۔5 اگر کتے نے شکار میں سے کچھ کھا لیا تو اسے کھانا درست نہیں۔