Abu-Daud:
Game (Kitab Al-Said)
(Chapter: Regarding Hunting)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2852.
سیدنا ابوثعلبہ خشنی ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کتے کے شکار کے بارے میں فرمایا: ”جب تم اپنا کتا چھوڑو اور اللہ کا نام ذکر کیا ہو تو اسے کھا لو اگرچہ کتے نے اس سے کھا بھی لیا ہو، اور ہر وہ چیز کھاؤ جس کو تمہارے ہاتھ نے تم پر لوٹایا ہو (جسے تم نے اپنے ہاتھ سے شکار کیا ہو۔)“
تشریح:
اصل مسئلہ وہی ہے۔ جو پیچھے کی صحیح احادیث میں گزرا ہے۔ کہ اگر کتے نے شکار میں سے کھایا ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں۔ اس لئے بعض علماء نے اس حدیث کو منکر (صحیح احادیث کے خلاف) قرار دیا ہے۔ اور یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ اور بعض حضرات اس حدیث کی وجہ سےشکا ر کے کتے کے کھانے کے باوجود اس کی حلت کے قائل ہیں۔ اور بعض نے اس کی یہ تاویل کی ہے۔ کہ شکاری کتے نے پہلے شکار کو پکڑ کر مار ڈالا پھر اس کو مالک کےلئے رکھ چھوڑا اور وہاں سے دور چلا گیا۔ پھر دوباہ واپس آکر کچھ کھا لے تو اس طرح اس کا کھا لینا مضر نہیں۔ مالک کے لئے اس شکار کا کھانا جائز ہے۔ کیونکہ اس نے پہلے تو مالک ہی کےلئے شکار کیا۔ اور اسی کے لئے اسے روکے رکھا اور کھایا اس نے بعد میں ہے اس لئے اس کھانے کا اعتبار نہیں ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف، ومن منكر؛ داود بن عمرو فيه ضعف من قبلحفظه. وقال الذهبي: انفرد بهذا الحديث، وهو منكر . وضعفه البيهقيبقوله: إن صح. وهو في الصحيحين ؛ وليس فيه ذكر الأكل .
قلت: بل فيهما من حديث عدِيِّ بنِ حاتم: ... فإن أكل منه؛ فلا تأكل،فإنه إنما أمسك على نفسه . وهو في الصحيح برقم (2538) ) .إسناده: حدثنا محمد بن عيسى: ثنا هُشيْمٌ : ثنا داود بن عمرو...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير داود بن عمرو، وهو ممن اختُلف فيه، وقال الحافظ: صدوق سيئ الحفظ . وقد حكى الذهبي في الميزان أقوال أئمة الجرح والتعديل فيه، ثم ذكر أنه انفرد بحديثين، هذا أحدهما، وقال: وهذا حديث منكر .
قلت: وأشار إلى ذلك البيهقيّ في كلامه على حديث عمرو بن شعيب الآتيبعده؛ بأن الحديث في الصحيحين من طريق أخرى عن الخولاني، وليس فيه: فكل وإن أكل منه ! وهو في الصحيح أيضاً برقم (2544) .بل في الصحيحين من حديث عدي بن حاتم، مرفوعاً بلفظ حديثالترجمه؛ إلا أنه قال: ... فكل، فإن أكل منه، فلا تأكل، فإنه إنما أمْسك على نفسه واللفظ لمسلم في روايه، وهو في الصحيح أيضاً برقم (2538) . فهذا مما يدلعلى أن داود لم يحفظ الحديث بتمامه؛ فأفسد المعنى.والحديثما أخرجه البيهقي (9/237) من طريق المولف.
٭شکار کی لغوی اور اصطلاحی تعریف :لغت میں شکار کو ’’الصيد‘‘ کہتے ہیں اور یہ صَادَ يَصيدُ سے مصدر ہے‘جس کے معنی پکڑنے اور حاصل کرنے کے ہیں۔اصطلاح میں’’الصيد‘‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے۔(أَخُذُ مُبَاحٍ أكْلُه غَيْرَ عَلَيهِ مِنْ وَحْشِ أوْ طَيْرٍ أوْ حَيْوانِ بَرٍّ أوْ بَحْرٍ بِقَصْدٍ)’’ایسے وحشی جانور یا پرندے کو ارادتاً یا شکار کرنا‘ جو انسانوں کی دسترس میں نہ ہوں اور جن کا کھانا حلال ہو۔‘‘
٭شکار کی مشروعیت :شکار کرنا حلال اور جائز ہے۔ شریعت مطہرہ نے اس کی اجازت دی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ)(المائدۃ:4) ’’ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ تمام پاک چیزیں تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنھیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمھیں دے رکھی ہے‘ پس جس شکار کو وہ تمھارے لیے پکڑ کر روک رکھیں ، تو تم اس سے کھا لو ۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر لیا کرو۔اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ شکار کی بابت رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ المُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ ثُمَّ كُلْ)(صحيح البخارى ~الذبائح والصيد.باب ماجا ء فى التصيد. حديث:5488) ’’اور جو تم سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کرو‘ تو اس پر اللہ کا نام ذکر کرو پھر کھا لو۔‘‘
٭شکار کے متعلق چند ضروری آداب و احکام:1 سمندری شکار مُحرِم اور غیر مُحرم دونوں شخص کر سکتے ہیں ۔جبکہ محرم کے لیے بَرّی (خشکی کا) شکار کرنا ناجائز ہے۔2 شکار کے لیے کتا چھوڑتے وقت یا فائر کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔3 شکار کے لیے آلہ تیز دھار ہونا چاہیے جیسے تیر‘گولی یا نیزا وغیرا ۔ اگر شکار چوٹ لگنے سے مر گیا تو اس کا کھانا حلال نہیں ہوگا 4 اگر کتے کے ذریعے سے شکار کیا جائے تو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ غیر سدھائے ہوئے کتے شریک نہ ہوئے ہوں ۔5 اگر کتے نے شکار میں سے کچھ کھا لیا تو اسے کھانا درست نہیں۔
سیدنا ابوثعلبہ خشنی ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کتے کے شکار کے بارے میں فرمایا: ”جب تم اپنا کتا چھوڑو اور اللہ کا نام ذکر کیا ہو تو اسے کھا لو اگرچہ کتے نے اس سے کھا بھی لیا ہو، اور ہر وہ چیز کھاؤ جس کو تمہارے ہاتھ نے تم پر لوٹایا ہو (جسے تم نے اپنے ہاتھ سے شکار کیا ہو۔)“
حدیث حاشیہ:
اصل مسئلہ وہی ہے۔ جو پیچھے کی صحیح احادیث میں گزرا ہے۔ کہ اگر کتے نے شکار میں سے کھایا ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں۔ اس لئے بعض علماء نے اس حدیث کو منکر (صحیح احادیث کے خلاف) قرار دیا ہے۔ اور یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ اور بعض حضرات اس حدیث کی وجہ سےشکا ر کے کتے کے کھانے کے باوجود اس کی حلت کے قائل ہیں۔ اور بعض نے اس کی یہ تاویل کی ہے۔ کہ شکاری کتے نے پہلے شکار کو پکڑ کر مار ڈالا پھر اس کو مالک کےلئے رکھ چھوڑا اور وہاں سے دور چلا گیا۔ پھر دوباہ واپس آکر کچھ کھا لے تو اس طرح اس کا کھا لینا مضر نہیں۔ مالک کے لئے اس شکار کا کھانا جائز ہے۔ کیونکہ اس نے پہلے تو مالک ہی کےلئے شکار کیا۔ اور اسی کے لئے اسے روکے رکھا اور کھایا اس نے بعد میں ہے اس لئے اس کھانے کا اعتبار نہیں ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوثعلبہ خشنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری کتے کے سلسلہ میں فرمایا: ”جب تم اپنے (شکاری) کتے کو چھوڑو، اور اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ کہہ) کر چھوڑو تو (اس کا شکار) کھاؤ اگرچہ وہ اس میں سے کھا لے۱؎ اور اپنے ہاتھ سے کیا ہوا شکار کھاؤ۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ اس سے ماقبل کی حدیث کے مابین تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو بیان جواز پر، اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا، ایک تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث حرمت کے سلسلہ میں اصل ہے، اور ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں «وإن أكل» کے معنی ہیں، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھاتا رہا ہو، مگر اس شکار میں اس نے نہ کھایا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Tha'labah al-Khushani (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said to me: Abu Tha'labah, eat what returns to you by your bow and your dog. Ibn Harb's version adds: "The trained (dog), and your hand, then eat, whether it has been slaughtered or not slaughtered".