تشریح:
اصل مسئلہ وہی ہے۔ جو پیچھے کی صحیح احادیث میں گزرا ہے۔ کہ اگر کتے نے شکار میں سے کھایا ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں۔ اس لئے بعض علماء نے اس حدیث کو منکر (صحیح احادیث کے خلاف) قرار دیا ہے۔ اور یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ اور بعض حضرات اس حدیث کی وجہ سےشکا ر کے کتے کے کھانے کے باوجود اس کی حلت کے قائل ہیں۔ اور بعض نے اس کی یہ تاویل کی ہے۔ کہ شکاری کتے نے پہلے شکار کو پکڑ کر مار ڈالا پھر اس کو مالک کےلئے رکھ چھوڑا اور وہاں سے دور چلا گیا۔ پھر دوباہ واپس آکر کچھ کھا لے تو اس طرح اس کا کھا لینا مضر نہیں۔ مالک کے لئے اس شکار کا کھانا جائز ہے۔ کیونکہ اس نے پہلے تو مالک ہی کےلئے شکار کیا۔ اور اسی کے لئے اسے روکے رکھا اور کھایا اس نے بعد میں ہے اس لئے اس کھانے کا اعتبار نہیں ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف، ومن منكر؛ داود بن عمرو فيه ضعف من قبلحفظه. وقال الذهبي: انفرد بهذا الحديث، وهو منكر . وضعفه البيهقيبقوله: إن صح. وهو في الصحيحين ؛ وليس فيه ذكر الأكل .
قلت: بل فيهما من حديث عدِيِّ بنِ حاتم: ... فإن أكل منه؛ فلا تأكل،فإنه إنما أمسك على نفسه . وهو في الصحيح برقم (2538) ) .إسناده: حدثنا محمد بن عيسى: ثنا هُشيْمٌ : ثنا داود بن عمرو...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير داود بن عمرو، وهو ممن اختُلف فيه، وقال الحافظ: صدوق سيئ الحفظ . وقد حكى الذهبي في الميزان أقوال أئمة الجرح والتعديل فيه، ثم ذكر أنه انفرد بحديثين، هذا أحدهما، وقال: وهذا حديث منكر .
قلت: وأشار إلى ذلك البيهقيّ في كلامه على حديث عمرو بن شعيب الآتيبعده؛ بأن الحديث في الصحيحين من طريق أخرى عن الخولاني، وليس فيه: فكل وإن أكل منه ! وهو في الصحيح أيضاً برقم (2544) .بل في الصحيحين من حديث عدي بن حاتم، مرفوعاً بلفظ حديثالترجمه؛ إلا أنه قال: ... فكل، فإن أكل منه، فلا تأكل، فإنه إنما أمْسك على نفسه واللفظ لمسلم في روايه، وهو في الصحيح أيضاً برقم (2538) . فهذا مما يدلعلى أن داود لم يحفظ الحديث بتمامه؛ فأفسد المعنى.والحديثما أخرجه البيهقي (9/237) من طريق المولف.