Abu-Daud:
Game (Kitab Al-Said)
(Chapter: When A Piece Is Cut From The Game)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2858.
سیدنا ابوواقد لیثی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جانور سے جو گوشت کاٹا جائے، جبکہ وہ جانور زندہ ہو تو وہ گوشت مردار (حرام) ہے۔“
تشریح:
یعنی عرب کے متعلق آتا ہے۔ کہ وہ دنبے کی چکتی کاٹ لیتے۔ اور زخم پر دوا لگا دیتے۔ اس طرح جانور بھی زندہ رہتا اورگوشت بھی کھا لیتے۔ تو شریعت نے اس کو مردار فرمایا ہے۔ یعنی حرام ہے۔ اور کتاب الصید میں اس حدیث کا تعلق یوں ہے۔ کہ اگر شکاری کتے نے یا تیر اور گولی وغیرہ نے جانور کا کوئی حصہ علیحدہ کر دیا گیا ہو اگر اسی حالت میں جان نکل گئی ہو تو دونوں ٹکڑے حلال ہیں۔ لیکن اگر روح نہیں نکلی اور کوئی حصہ الگ ہوچکا ہو۔ اور پھر اسے ذبح کی جا رہا ہو تو ذبح سے پہلے علیحدہ ہوجانے والا حصہ کھانے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ورنہ نشانہ مارتے ہوئے بسم اللہ تو پڑھی جا چکی ہے۔ اسے بھی کھایا جا سکتا ہے۔
٭شکار کی لغوی اور اصطلاحی تعریف :لغت میں شکار کو ’’الصيد‘‘ کہتے ہیں اور یہ صَادَ يَصيدُ سے مصدر ہے‘جس کے معنی پکڑنے اور حاصل کرنے کے ہیں۔اصطلاح میں’’الصيد‘‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے۔(أَخُذُ مُبَاحٍ أكْلُه غَيْرَ عَلَيهِ مِنْ وَحْشِ أوْ طَيْرٍ أوْ حَيْوانِ بَرٍّ أوْ بَحْرٍ بِقَصْدٍ)’’ایسے وحشی جانور یا پرندے کو ارادتاً یا شکار کرنا‘ جو انسانوں کی دسترس میں نہ ہوں اور جن کا کھانا حلال ہو۔‘‘
٭شکار کی مشروعیت :شکار کرنا حلال اور جائز ہے۔ شریعت مطہرہ نے اس کی اجازت دی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ)(المائدۃ:4) ’’ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ تمام پاک چیزیں تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنھیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمھیں دے رکھی ہے‘ پس جس شکار کو وہ تمھارے لیے پکڑ کر روک رکھیں ، تو تم اس سے کھا لو ۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر لیا کرو۔اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ شکار کی بابت رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ المُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ ثُمَّ كُلْ)(صحيح البخارى ~الذبائح والصيد.باب ماجا ء فى التصيد. حديث:5488) ’’اور جو تم سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کرو‘ تو اس پر اللہ کا نام ذکر کرو پھر کھا لو۔‘‘
٭شکار کے متعلق چند ضروری آداب و احکام:1 سمندری شکار مُحرِم اور غیر مُحرم دونوں شخص کر سکتے ہیں ۔جبکہ محرم کے لیے بَرّی (خشکی کا) شکار کرنا ناجائز ہے۔2 شکار کے لیے کتا چھوڑتے وقت یا فائر کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔3 شکار کے لیے آلہ تیز دھار ہونا چاہیے جیسے تیر‘گولی یا نیزا وغیرا ۔ اگر شکار چوٹ لگنے سے مر گیا تو اس کا کھانا حلال نہیں ہوگا 4 اگر کتے کے ذریعے سے شکار کیا جائے تو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ غیر سدھائے ہوئے کتے شریک نہ ہوئے ہوں ۔5 اگر کتے نے شکار میں سے کچھ کھا لیا تو اسے کھانا درست نہیں۔
سیدنا ابوواقد لیثی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جانور سے جو گوشت کاٹا جائے، جبکہ وہ جانور زندہ ہو تو وہ گوشت مردار (حرام) ہے۔“
حدیث حاشیہ:
یعنی عرب کے متعلق آتا ہے۔ کہ وہ دنبے کی چکتی کاٹ لیتے۔ اور زخم پر دوا لگا دیتے۔ اس طرح جانور بھی زندہ رہتا اورگوشت بھی کھا لیتے۔ تو شریعت نے اس کو مردار فرمایا ہے۔ یعنی حرام ہے۔ اور کتاب الصید میں اس حدیث کا تعلق یوں ہے۔ کہ اگر شکاری کتے نے یا تیر اور گولی وغیرہ نے جانور کا کوئی حصہ علیحدہ کر دیا گیا ہو اگر اسی حالت میں جان نکل گئی ہو تو دونوں ٹکڑے حلال ہیں۔ لیکن اگر روح نہیں نکلی اور کوئی حصہ الگ ہوچکا ہو۔ اور پھر اسے ذبح کی جا رہا ہو تو ذبح سے پہلے علیحدہ ہوجانے والا حصہ کھانے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ورنہ نشانہ مارتے ہوئے بسم اللہ تو پڑھی جا چکی ہے۔ اسے بھی کھایا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوواقد لیثی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”زندہ جانور کے بدن سے جو چیز کاٹی جائے وہ مردار ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated AbuWaqid: The Prophet (ﷺ) said: Whatever is cut off of an animal when it is alive is dead.