باب: یتیم کا سر پرست اس کے مال سے کس قدر لینے کا مجاز ہے ؟
)
Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related About What Is Allowed For The Guardian Of The Orphan To Take From His Wealth)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2872.
سیدنا عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں فقیر ہوں اور میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میرے ہاں ایک یتیم بھی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اپنے یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے، لیکن اسراف اور فضول خرچی ہو، نہ جلدی کرنے والا ہو (کہ اس کے بڑے ہونے سے پہلے پہلے اس کے مال کو خرچ کر ڈالے) اور نہ اس کے مال سے تو کوئی جمع پونجی بنانے والا ہو۔“
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
سیدنا عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں فقیر ہوں اور میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میرے ہاں ایک یتیم بھی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اپنے یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے، لیکن اسراف اور فضول خرچی ہو، نہ جلدی کرنے والا ہو (کہ اس کے بڑے ہونے سے پہلے پہلے اس کے مال کو خرچ کر ڈالے) اور نہ اس کے مال سے تو کوئی جمع پونجی بنانے والا ہو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں محتاج ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے، البتہ ایک یتیم میرے پاس ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے یتیم کے مال سے کھاؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرنا، نہ جلد بازی دکھانا (اس کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے) نہ اس کے مال سے ک کر اپنا مال بڑھانا۱؎۔“۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے بقدر تم کھاؤ، نہ کہ فضول خرچی کرو، یا یہ خیال کر کے یتیم بڑا ہو جائے گا تو مال نہ مل سکے گا، جلدی جلدی خرچ کر ڈالو، یا اس میں سے اپنے لئے جمع کر لو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amr ibn al-'As (RA): A man came to the Prophet (ﷺ) and said: I am poor, I have nothing (with me), and I have an orphan. He said: Use the property of your orphan without spending it lavishly, hurrying and taking it as your own property.