باب: انسان کوئی چیز ہبہ کرے پھر اس چیز کی اسی کے لیے وصیت کر دے یا دینے والا ہی اس کا وارث بن جائے؟
)
Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related About A Man Who GIves A Gift, Then It Is Bequeathed To Him, Or He Inherits It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2877.
سیدنا بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا: میں نے ایک لونڈی اپنی والدہ کو صدقہ دی تھی، والدہ فوت ہو گئی ہے اور وہ لونڈی ورثے میں چھوڑ گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرا ثواب ثابت ہوا اور وہ لونڈی وراثت میں تجھے واپس آ گئی۔“ اس نے کہا: والدہ فوت ہوئی ہے تو اس پر ایک مہینے کے روزے ہیں، اگر میں اس کی طرف سے روزے رکھوں تو کیا اس کی طرف سے کفایت یا قضاء ہو جائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ عورت نے کہا: والدہ نے حج نہیں کیا تھا، اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو کیا اس کی طرف سے کفایت یا قضاء ہو جائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں!“
تشریح:
1۔ والدین کی مادی ومعنوی خدمت اور مدد کرنا اہم تین فضائل میں سے ہے۔ اور بڑے اجر کا کام ہے۔ 2۔ صدقہ اور ہدیہ اگر بطور ورثہ واپس مل جائے۔ تو اس کا مالک بننا جائز ہے۔ اسی طرح لینا اس ذیل میں نہیں آتا۔ جس میں صدقہ اور ہبہ واپس لینا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ 3۔ میت کے ذمے اگر روزے باقی ہوں تو وارث کو اس کی قضا کرنی چاہیے۔ 4۔ اس طرح میت کی طرف سے حج بھی ہوسکتا ہے۔
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
سیدنا بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا: میں نے ایک لونڈی اپنی والدہ کو صدقہ دی تھی، والدہ فوت ہو گئی ہے اور وہ لونڈی ورثے میں چھوڑ گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرا ثواب ثابت ہوا اور وہ لونڈی وراثت میں تجھے واپس آ گئی۔“ اس نے کہا: والدہ فوت ہوئی ہے تو اس پر ایک مہینے کے روزے ہیں، اگر میں اس کی طرف سے روزے رکھوں تو کیا اس کی طرف سے کفایت یا قضاء ہو جائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ عورت نے کہا: والدہ نے حج نہیں کیا تھا، اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو کیا اس کی طرف سے کفایت یا قضاء ہو جائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں!“
حدیث حاشیہ:
1۔ والدین کی مادی ومعنوی خدمت اور مدد کرنا اہم تین فضائل میں سے ہے۔ اور بڑے اجر کا کام ہے۔ 2۔ صدقہ اور ہدیہ اگر بطور ورثہ واپس مل جائے۔ تو اس کا مالک بننا جائز ہے۔ اسی طرح لینا اس ذیل میں نہیں آتا۔ جس میں صدقہ اور ہبہ واپس لینا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ 3۔ میت کے ذمے اگر روزے باقی ہوں تو وارث کو اس کی قضا کرنی چاہیے۔ 4۔ اس طرح میت کی طرف سے حج بھی ہوسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آ کر کہا: میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی ہبہ کی تھی، اب وہ مر گئیں اور لونڈی چھوڑ گئیں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا ثواب بن گیا اور تمہیں تمہاری لونڈی بھی میراث میں واپس مل گئی۔“ پھر اس نے عرض کیا: میری ماں مر گئی، اور اس پر ایک مہینے کے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے قضاء کروں تو کافی ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۱؎۔“ پھر اس نے کہا: اس نے حج بھی نہیں کیا تھا، کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں تو اس کے لیے کافی ہو گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں (کر لو)۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: بعض اہل علم کا خیال ہے کہ میت کی طرف سے روزہ رکھا جا سکتا ہے جب کہ علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ بدنی عبادت میں نیابت درست نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ نماز میں کسی کی طرف سے نیابت نہیں کی جاتی، البتہ جن چیزوں میں نیابت کی تصریح ہے، ان میں نیابت درست ہے جیسے روزہ و حج وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Buraidah: A woman came to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: I donated my slave-girl to my mother, but she died and left the slave-girl. He said: Your reward became due, and she came back to you in inheritance. She said: She died while a month's fasting was due from her. Would it be sufficient or be taken as completed if I fast on her behalf ? He said: Yes. She said: She also did not perform Hajj. Would it be sufficient or be taken completed if I perform (Hajj) on her behalf ? He said: Yes.