باب: میت کی وصیت کے بغیر ہی اس کی طرف سے صدقہ کرنا
)
Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related About Giving In Charity For One Who Died Without Leaving A Will)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2881.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اے ﷲ کے رسول! میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہوتی (اور اسے موقع ملتا) تو وہ ضرور کوئی صدقہ کر جاتی اور کوئی عطیہ دیتی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کی طرف سے کفایت ہو گی؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! تم اس کی طرف سے صدقہ کرو۔“
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اے ﷲ کے رسول! میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہوتی (اور اسے موقع ملتا) تو وہ ضرور کوئی صدقہ کر جاتی اور کوئی عطیہ دیتی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کی طرف سے کفایت ہو گی؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! تم اس کی طرف سے صدقہ کرو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: میری ماں اچانک انتقال کر گئیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ضرور صدقہ کرتیں اور (اللہ کی راہ میں) دیتیں، تو کیا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو یہ انہیں کفایت کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں تو ان کی طرف سے صدقہ کر دو۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس بات پر علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ صدقے اور دعا کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA), Ummul Mu'minin: A woman said: Apostle of Allah (ﷺ) , my mother suddenly died; if it had not happened, she would have given sadaqah (charity) and donated (something). Will it suffice if I give sadaqah on her behalf? The Prophet (ﷺ) said: Yes, give sadaqah on her behalf.