Abu-Daud:
Shares of Inheritance (Kitab Al-Fara'id)
(Chapter: A Person Who Has No Son But He Has Sisters)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2889.
سیدنا براء بن عازب ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے اﷲ کے رسول! لوگ آپ سے ”کلالہ“ کے بارے میں فتوی چاہتے ہیں، تو اس ”کلالہ“ سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے (اس کی توضیح میں) فرمایا: ”تجھے وہ آیت کافی ہے جو گرمی کے موسم میں نازل ہوئی ہے۔“ (راوی ابوبکر کہتے ہیں) میں نے ابواسحٰق سے کہا: (کیا کلالہ وہ نہیں کہ) جو فوت ہو جائے اور نہ اولاد چھوڑ جائے اور نہ والد؟ انہوں نے کہا: علماء ایسے ہی کہتے ہیں۔
تشریح:
1۔ (کلالة) کا ذکر سورہ نساء میں دو جگہ ہے۔ ایک آیت نمبر 12 میں (وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ) (النساء12/4) یہ آیت سردیوں میں نازل ہوئی، جبکہ سورہ نساء کی آیت جس کا ذکراوپر کی احادیث میں ہوا ہے، گرمیوں میں نازل ہوئی۔ سورہ نساء کی آیت کریمہ 176) میں کلالہ اسے کہا گیا ہے کہ جس کی اولاد نہ ہو۔ اور بہن بھائی موجود ہوں۔ جبکہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کلالہ اسے کہتے ہیں۔ کہ جس کی اولاد نہ ہو اور والد بھی نہ ہو۔ تو یہ اضافہ حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ماخوذ ہے کہ جب ان کے بارے میں یہ آیت اتری نہ ان کی اولاد تھی نہ ان کے والد اور یہ مثال ہے کہ احادیث قرآن مجید کی توضیح وتبیین کرتی اور بعض اوقات اس پراضافہ بھی بیان کرتی ہیں۔ (خطابی)
٭فرائض کی لغوی اور اصطلاحی تعریف:[فرائض ‘ فريضة] کی جمع ہے جس کے معنی ہیں‘مقرر کیا ہوا‘اندازاہ لگایا ہوا‘حساب کیا ہوا۔اصطلاح میں ’’ فرائض ‘‘ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :(عِلْمٌ يُعْرَفُ بِهِ مَنْ يَّرِثُ مَنْ لًأ يَرِثُ وَ مِقْدَارُ مَا لِكُلِّ وَارِثٍ )’’ فرائض سے مراد وہ علم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون وارث ہے ‘ کون نہیں اور ہر وارث کا کیا حق ہے۔‘‘
وراثت کی تقسیم کو ’’فرائض‘‘ کا نا اس دیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ نے اسے فرائض کہا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(فَرِضَةً مِّنَ اللهِ) اور ارشاد نبوی ہے:[تَعًلِّمُوا الفَرَائضَ] يا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر احکامات مثلاً نماز ‘روزہ‘حج یا زکوٰۃ وغیرہ کے بر عکس وراثت کے احکام میں تفصیلات خود بیان فرمائی ہیں‘ ہر حقدار کا حصہ مقرر فرما دیا ہے اس لیے اسے فرائض یعنی مقدر اور مقرر کیے ہوئے حقوق کہا جاتا ہے۔
٭وراثت کی مشروعیت :اسلام کے انسانیت پر بے شمار احسانات میں سے ایک وراثت کی تقسیم کے عادلانہ قوائد و ضوابط بھی ہیں ‘ اسلام سے قبل طاقت اور قوت ہی سکہ ٔرائج الوقت تھا۔ لہذا طاقت ور تمام آبائی جائیداد کے وارث بنتے جبکہ کمزور و ناتواں افراد خصوصا عورتیں اس سے بالکل محروم رکھے جاتے۔جیسا کہ ابتدائے اسلام میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے پھر پروردگار عالم نے انسانیت پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے وراثت کی تقسیم کے قوانین نازل فرما کر اس قدیم ظلم کا خاتمہ فر ما دیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا)(النساء:4/7)’’ جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں ‘وہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کابھی ‘ یہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں ۔‘‘ نیز ضعیف و کمزور بچوں کے بارے میں فرمایا(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ)(النساء4/11)’’ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘
٭وراثت کی شرائط ‘اسباب اور موانع : اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے ‘اپنے حق کے حصول کیلئے چند شرائط ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے ‘ چند اسباب ہیں جن کے بغیر حقدار بننے کا دعوی نہیں کر سکتا اور چند رکاوٹیں ہیں جو کسی حقدار کو اس کے حق کی وصولی میں مانع ہیں ‘ان کی تفصیل اس طرح ہے
شرائط: 1میت (مورث) کی موت کا یقینی علم ہونا۔2 وارث کا اپنے مورث کی موت کے وقت زندہ ہونا ۔3 وراثت کے موانع کا نہ پایا جانا۔
اسباب:وراثت کے حصول کے لیے درج ذیل تین اسباب ہیں:
نسبی قرابت :جیسے باپ‘ دادا ‘بیٹا‘ پوتا وغیرہ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ) (النساء) 4/33) ’’ہر مال میں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ‘ہم نے حقدار مقرر کر دیے ہیں۔‘‘
٭مسنون نکاح:کسی عورت اور مرد کا مسنون نکاح بھی ان کے ایک دوسرے کے وارث بننے کا سبب ہے ، خواہ اس نکاح کے بعد عورت کی رخصتی اور مرد سے خلوت ِصحیحہ ہو یا نہ ہو۔ارشاد باری تعالی ہے (وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ)(النساء :4/14)
٭ولاء:غلام کو آزاد کرنے والا اپنے غلام کا وارث بنتا ہے اور اگر آزاد کرنے والے کا کوئی وارث نہ ہو تو آزاد ہونے والا غلام اس کا وارث بنتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «إِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»’’یقیناً ولاء (وراثت کا حق) اس کے لیے ہے جس نے آزاد کیا۔‘‘ (صحيح البخارى ~الفرائض~ باب الولاء لمن أعتق وميراث اللقيط~ حديث:6756)
موانع:درج ذیل امور وارث کو اس کے حق سے محروم کر دیتے ہیں:
٭قتل : اگر وارث اپنے مورث کو ظلماً قتل کر دے تو وہ محروم کر دیتے ہیں:
٭کفر:کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر رشتہ دار کا وارث نہیں بنتا۔
٭غلامی:غلام وارث نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود کسی کی ملکیت ہوتا ہے۔
٭زنا:حرامی اولاد اپنے زانی باپ کی وارث نہیں بنتی۔
٭لعان:لعان کی صورت میں جدائی کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے۔
٭وہ بچہ جو پیدائش کے وقت چیخ وغیرہ نہ مارے یعنی اس میں زندگی کے آثار نہ ہوں تو وہ بھی وارث نہیں بنتا۔
سیدنا براء بن عازب ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے اﷲ کے رسول! لوگ آپ سے ”کلالہ“ کے بارے میں فتوی چاہتے ہیں، تو اس ”کلالہ“ سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے (اس کی توضیح میں) فرمایا: ”تجھے وہ آیت کافی ہے جو گرمی کے موسم میں نازل ہوئی ہے۔“ (راوی ابوبکر کہتے ہیں) میں نے ابواسحٰق سے کہا: (کیا کلالہ وہ نہیں کہ) جو فوت ہو جائے اور نہ اولاد چھوڑ جائے اور نہ والد؟ انہوں نے کہا: علماء ایسے ہی کہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ (کلالة) کا ذکر سورہ نساء میں دو جگہ ہے۔ ایک آیت نمبر 12 میں (وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ) (النساء12/4) یہ آیت سردیوں میں نازل ہوئی، جبکہ سورہ نساء کی آیت جس کا ذکراوپر کی احادیث میں ہوا ہے، گرمیوں میں نازل ہوئی۔ سورہ نساء کی آیت کریمہ 176) میں کلالہ اسے کہا گیا ہے کہ جس کی اولاد نہ ہو۔ اور بہن بھائی موجود ہوں۔ جبکہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کلالہ اسے کہتے ہیں۔ کہ جس کی اولاد نہ ہو اور والد بھی نہ ہو۔ تو یہ اضافہ حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ماخوذ ہے کہ جب ان کے بارے میں یہ آیت اتری نہ ان کی اولاد تھی نہ ان کے والد اور یہ مثال ہے کہ احادیث قرآن مجید کی توضیح وتبیین کرتی اور بعض اوقات اس پراضافہ بھی بیان کرتی ہیں۔ (خطابی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
براء بن عازب ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «يستفتونك في الكلالة» میں کلالہ سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: آیت «صيف»۱؎ تمہارے لیے کافی ہے۔ ابوبکر کہتے ہیں: میں نے ابواسحاق سے کہا: کلالہ وہی ہے نا جو نہ اولاد چھوڑے نہ والد؟ انہوں نے کہا: ہاں، لوگوں نے ایسا ہی سمجھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: سورہ نساء کا آخری حصہ گرمی کے زمانہ میں نازل ہوا ہے، اس لئے اسے آیت «صيف» کہا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' (RA) ibn Azib: A man came to the Prophet (ﷺ) and said: Apostle of Allah (ﷺ), they ask thee for a legal decision about a kalalah. What is meant by kalalah? He replied: The verse revealed in summer is sufficient for you. I asked Abu Ishaq: Does it mean a person who dies and leaves neither children nor father? He said: This is so. The people think it is so.