Abu-Daud:
Shares of Inheritance (Kitab Al-Fara'id)
(Chapter: What Has Been Related About The Grandfather's Inheritance)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2896.
سیدنا عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: میرا پوتا فوت ہو گیا ہے، تو میرے لیے اس کی وراثت میں سے کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے لیے چھٹا حصہ ہے۔“ جب اس نے پشت پھیری تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”تیرے لیے ایک اور چھٹا حصہ بھی ہے۔“ جب اس نے پشت پھیری تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”یہ دوسرا چھٹا حصہ تحفہ ہے۔“ قتادہ ؓ نے کہا: لوگ نہیں جان سکے کہ کس چیز کے ساتھ اسے وارث بنایا۔ قتادہ نے (یہ بھی) کہا: دادا کا کم از کم حصہ وراثت چھٹا ہے۔
تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ لیکن مسئلہ ایسے ہی ہے۔ کہ بالفرض اگر مرنے والے کے وارث دادا اور دو بیٹیاں ہوں۔ تو دادا کو چھٹا حصہ بیٹیوں کو دو تہائی 4/6 اور بقیہ 1/6 بھی دادے کو ملے گا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت ت اسناده ضعيف؛ لانقطاعه، فإن الحسن- وهو البصري- مدلس،ولم يسمع من عمران، وبذلك أعله المنذري) .إسناده: حدثنا محمد بن كثير: أخبرنا همام عن قتادة عن الحسن...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ إلا أنه منقطع بينالحسن- وهو: ابن أبي الحسن البصري- وعمران، وبذلك أعله المنذري؛ فقال(4/168) : قال علي بن المديني وأبو حاتم الرازي وغيرُهما: إن الحسن لم يسمع منعمران بن حصين .
قلت: ولو فُرِض أنه سممع منه؛ فهو مدلس وقد عنعنه.والحديث أخرجه الترمذي (2100) ، وابن الجارود (961) ، والدارقطني(4/84/52) ، والطيالسي (834) ، وأحمد (4/428 و 436) من طرق أخر عنهمام... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ! وتعقبه المنذري بما نقلته عنه آنفاً
٭فرائض کی لغوی اور اصطلاحی تعریف:[فرائض ‘ فريضة] کی جمع ہے جس کے معنی ہیں‘مقرر کیا ہوا‘اندازاہ لگایا ہوا‘حساب کیا ہوا۔اصطلاح میں ’’ فرائض ‘‘ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :(عِلْمٌ يُعْرَفُ بِهِ مَنْ يَّرِثُ مَنْ لًأ يَرِثُ وَ مِقْدَارُ مَا لِكُلِّ وَارِثٍ )’’ فرائض سے مراد وہ علم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون وارث ہے ‘ کون نہیں اور ہر وارث کا کیا حق ہے۔‘‘
وراثت کی تقسیم کو ’’فرائض‘‘ کا نا اس دیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ نے اسے فرائض کہا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(فَرِضَةً مِّنَ اللهِ) اور ارشاد نبوی ہے:[تَعًلِّمُوا الفَرَائضَ] يا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر احکامات مثلاً نماز ‘روزہ‘حج یا زکوٰۃ وغیرہ کے بر عکس وراثت کے احکام میں تفصیلات خود بیان فرمائی ہیں‘ ہر حقدار کا حصہ مقرر فرما دیا ہے اس لیے اسے فرائض یعنی مقدر اور مقرر کیے ہوئے حقوق کہا جاتا ہے۔
٭وراثت کی مشروعیت :اسلام کے انسانیت پر بے شمار احسانات میں سے ایک وراثت کی تقسیم کے عادلانہ قوائد و ضوابط بھی ہیں ‘ اسلام سے قبل طاقت اور قوت ہی سکہ ٔرائج الوقت تھا۔ لہذا طاقت ور تمام آبائی جائیداد کے وارث بنتے جبکہ کمزور و ناتواں افراد خصوصا عورتیں اس سے بالکل محروم رکھے جاتے۔جیسا کہ ابتدائے اسلام میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے پھر پروردگار عالم نے انسانیت پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے وراثت کی تقسیم کے قوانین نازل فرما کر اس قدیم ظلم کا خاتمہ فر ما دیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا)(النساء:4/7)’’ جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں ‘وہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کابھی ‘ یہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں ۔‘‘ نیز ضعیف و کمزور بچوں کے بارے میں فرمایا(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ)(النساء4/11)’’ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘
٭وراثت کی شرائط ‘اسباب اور موانع : اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے ‘اپنے حق کے حصول کیلئے چند شرائط ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے ‘ چند اسباب ہیں جن کے بغیر حقدار بننے کا دعوی نہیں کر سکتا اور چند رکاوٹیں ہیں جو کسی حقدار کو اس کے حق کی وصولی میں مانع ہیں ‘ان کی تفصیل اس طرح ہے
شرائط: 1میت (مورث) کی موت کا یقینی علم ہونا۔2 وارث کا اپنے مورث کی موت کے وقت زندہ ہونا ۔3 وراثت کے موانع کا نہ پایا جانا۔
اسباب:وراثت کے حصول کے لیے درج ذیل تین اسباب ہیں:
نسبی قرابت :جیسے باپ‘ دادا ‘بیٹا‘ پوتا وغیرہ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ) (النساء) 4/33) ’’ہر مال میں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ‘ہم نے حقدار مقرر کر دیے ہیں۔‘‘
٭مسنون نکاح:کسی عورت اور مرد کا مسنون نکاح بھی ان کے ایک دوسرے کے وارث بننے کا سبب ہے ، خواہ اس نکاح کے بعد عورت کی رخصتی اور مرد سے خلوت ِصحیحہ ہو یا نہ ہو۔ارشاد باری تعالی ہے (وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ)(النساء :4/14)
٭ولاء:غلام کو آزاد کرنے والا اپنے غلام کا وارث بنتا ہے اور اگر آزاد کرنے والے کا کوئی وارث نہ ہو تو آزاد ہونے والا غلام اس کا وارث بنتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «إِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»’’یقیناً ولاء (وراثت کا حق) اس کے لیے ہے جس نے آزاد کیا۔‘‘ (صحيح البخارى ~الفرائض~ باب الولاء لمن أعتق وميراث اللقيط~ حديث:6756)
موانع:درج ذیل امور وارث کو اس کے حق سے محروم کر دیتے ہیں:
٭قتل : اگر وارث اپنے مورث کو ظلماً قتل کر دے تو وہ محروم کر دیتے ہیں:
٭کفر:کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر رشتہ دار کا وارث نہیں بنتا۔
٭غلامی:غلام وارث نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود کسی کی ملکیت ہوتا ہے۔
٭زنا:حرامی اولاد اپنے زانی باپ کی وارث نہیں بنتی۔
٭لعان:لعان کی صورت میں جدائی کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے۔
٭وہ بچہ جو پیدائش کے وقت چیخ وغیرہ نہ مارے یعنی اس میں زندگی کے آثار نہ ہوں تو وہ بھی وارث نہیں بنتا۔
سیدنا عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: میرا پوتا فوت ہو گیا ہے، تو میرے لیے اس کی وراثت میں سے کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے لیے چھٹا حصہ ہے۔“ جب اس نے پشت پھیری تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”تیرے لیے ایک اور چھٹا حصہ بھی ہے۔“ جب اس نے پشت پھیری تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”یہ دوسرا چھٹا حصہ تحفہ ہے۔“ قتادہ ؓ نے کہا: لوگ نہیں جان سکے کہ کس چیز کے ساتھ اسے وارث بنایا۔ قتادہ نے (یہ بھی) کہا: دادا کا کم از کم حصہ وراثت چھٹا ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ لیکن مسئلہ ایسے ہی ہے۔ کہ بالفرض اگر مرنے والے کے وارث دادا اور دو بیٹیاں ہوں۔ تو دادا کو چھٹا حصہ بیٹیوں کو دو تہائی 4/6 اور بقیہ 1/6 بھی دادے کو ملے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرا پوتا مر گیا ہے، مجھے اس کی میراث سے کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارے لیے چھٹا حصہ ہے۔“ جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا: ”تمہارے لیے ایک اور چھٹا حصہ ہے۔“ جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ ﷺ نے پھر اسے بلایا اور فرمایا: ”یہ دوسرا «سدس» تمہارے لیے تحفہ ہے۔“ قتادہ کہتے ہیں: معلوم نہیں دادا کو کس کے ساتھ سدس حصہ دار بنایا؟ قتادہ کہتے ہیں: سب سے کم حصہ جو دادا پاتا ہے وہ «سدس» ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Imran ibn Husayn: A man came to the Prophet (ﷺ) and said: My son has died; what do I receive from his estate? He replied: You receive a sixth. When he turned away he called him and said: You receive another sixth. When he turned away, he called him and said: The other sixth is an allowance (beyond what is due). Qatadah said: They (the Companions) did not know the heirs with whom he was given (a sixth). Qatadah said: The minimum share given to the grandfather was a sixth.