Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Prohibition Of Urinating In Burrows)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
29.
سیدنا عبداللہ بن سرجس ؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بل میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لوگوں نے قتادہ سے کہا کہ بل میں پیشاب کیوں مکروہ و ممنوع ہے؟ تو انہوں نے کہا: کہا جاتا ہے کہ ان میں جن رہتے ہیں۔
تشریح:
فوائد: یہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ بلوں میں پیشاب نہ کیا جائے، کیونکہ بلوں میں بالعموم موذی جانور بھی ہوتے ہیں تو ان میں پیشاب کرنے سے کوئی آزار بھی پہنچ سکتا ہے اس لیے کھلے ماحول کو چھوڑ کر کسی بل یا سوراخ کو پیشاب کرنے کے لیے استعمال کرنا کوئی عقل ودانش کی بات نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: ضعيف منقطع؛ أعله به ابن التركماني) . أخرجه من طريق معاذ بن هشام: حدثني أبي عن قتادة. ومن هذا الوجه: أخرجه النسائي والحاكم والبيهقي، وأحمد (5/82) . ورجاله كلهم ثقات رجال الشيخين، ولكن له علة خفية- كما يأتي-. وقال الحاكم: صحيح على شرطهما ! ووافقه الذهبي! ثم قال الحاكم: ولعل متوهماً يتوهم أن قتادة لم يذْكُرْ سماعه من عبد اللّه بن سرجس، وليس هذا بمستبعد؛ فقد سمع قتادة من جماعة من الصحابة لم يسمع منهم عاصم بن سليمان الأحول، وقد احتج مسلم بحديث عاصم عن عبد الله بن سرجس- وهو من ساكني البصرة- ! ومقصوده من ذلك إثبات إمكان لقاء قتادة لابن سرجس، وهو كاف في الاتصال، كما عليه الجمهور؛ ولكن هذا مقيد بما إذا لم يكن للراوي معروفاً بالتدليس. أما والأمر ليس كذلك هنا؛ فلا! وذلك لأن قتادة قد ذكر في المدلسين كما يتبين لك بمراجعة كتب القوم، كـ التهذيب وغيره. وقد أورده الحاكم نفسه فيهم في كتابه معرفة علوم الحديث (ص 103) ، لكنه ذكره في المدلسين للذين لم يخرجوا من عداد الذين تقبل أخبارهم . على أن الحاكم قد صرح بخلاف مراده هنا، فقال في خاتمة الباب المشار إليه منه (ص 111) : فليعلم صاحب الحديث أن الحسن لم يسمع من أبي هريرة... وأن قتادة لم يسمع من صحابي غير أنس . فثبت أن الحديث منقطع؛ فهو ضعيف بالرغم من ثقة رجاله. وبذلك أعله ابن التركماني؛ حيث قال: قلت: روى ابن أبي حاتم عن حرب بن إسماعيل عن ابن حنبل قال: ما أعلم قتادة روى عن أحد من أصحاب رسول اللّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلا عن أنس. قيل له: فابن سرجس؟ فكأنه لم يره سماعاً . قال الحافظ في التلخيص (1/465) : وأثبت سماعه منه: علي بن المديني، وصححه ابن خزيمة وابن السكن . قلت: الشبهة لا تزال قائمة؛ فاعلم ذلك.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن سرجس ؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بل میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لوگوں نے قتادہ سے کہا کہ بل میں پیشاب کیوں مکروہ و ممنوع ہے؟ تو انہوں نے کہا: کہا جاتا ہے کہ ان میں جن رہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد: یہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ بلوں میں پیشاب نہ کیا جائے، کیونکہ بلوں میں بالعموم موذی جانور بھی ہوتے ہیں تو ان میں پیشاب کرنے سے کوئی آزار بھی پہنچ سکتا ہے اس لیے کھلے ماحول کو چھوڑ کر کسی بل یا سوراخ کو پیشاب کرنے کے لیے استعمال کرنا کوئی عقل ودانش کی بات نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدللہ بن سرجس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ لوگوں نے قتادہ سے پوچھا: کس وجہ سے سوراخ میں پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے؟ انہوں نے کہا: کہا جاتا تھا کہ وہ جنوں کی جائے سکونت (گھر) ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Sarjis: The Prophet (ﷺ) prohibited to urinate in a hole. Qatadah (a narrator) was asked about the reason for the disapproval of urinating in a hole. He replied: It is said that these (holes) are the habitats of the jinn.