Abu-Daud:
Shares of Inheritance (Kitab Al-Fara'id)
(Chapter: Regarding The Inheritance For Those Related Due To The Womb)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2901.
صالح بن یحییٰ بن مقدام اپنے والد سے وہ دادا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: ”میں اس کا وارث ہوں جس کا کوئی وارث نہ ہو، میں اس کا قیدی چھڑاؤں گا اور اس کے مال کا وارث بنوں گا۔ اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، وہ اس کا قیدی چھڑائے گا اور اس کے مال کا وارث بنے گا۔“
تشریح:
1۔ ان احادیث میں حکومت اسلامیہ کی اقتصادی پالیسی کا ایک پہلو بیان ہواہے۔ کہ وہ اپنی رعیت کو معاشی فلاح وبہبود کی ہر طرح سے ذمہ دار ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مقروض مرجائے تو ہو اس کا قرضہ ادا کرے گی۔ بے سہارا چھوٹے بچوں اور بیوائوں کی کفالت کرے گی۔ جبکہ وراثت رشتہ داروں میں تقسیم ہوگی۔ 2۔ ماموں ذوی الارحام میں سے ہے۔ دوسرے وارثوں کے نہ ہونے کی صورت میں وہی وارث ہے۔ اور اسی طرح اگر بھانجے کے ذمے کوئی مالی حقوق آتے ہوں۔ تو وہ ان کی ادایئگی کا بھی پابند ہے۔ اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بحیثیت مسلمان انسان کو اپنے قریبی بعیدی سبھی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ مظبوط رکھنا چاہیے۔ جیسے جی یہی لوگ اس کے معاون و مددگار اور اس کے پیچھے اس کی اولاد کے کفیل بنتے ہیں۔ 3۔ اگر کوئی شخص لاوارث ہوتو حکومت اسلامیہ (بیت المال) اس کی وارث ہوگی۔ اور ایسے شخص پر لازم آنے والے مالی حقوق بھی حکومت ادا کرے گی۔ 4۔ یہ رفاحی اصول مسلمانوں اور مومنوں کے لئے ہیں۔ جو بلاجواز حکومت سے صدقات لینے کے روادار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ایمان انسان کے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرتا ہے۔ اس لئے یہ نہ سمجھا جائے کہ ان رعایتوں کی وجہ سے لوگ محنت نہیں کریں گے اور حکومت ہی پر بوجھ بن کر رہ جایئں گے۔
٭فرائض کی لغوی اور اصطلاحی تعریف:[فرائض ‘ فريضة] کی جمع ہے جس کے معنی ہیں‘مقرر کیا ہوا‘اندازاہ لگایا ہوا‘حساب کیا ہوا۔اصطلاح میں ’’ فرائض ‘‘ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :(عِلْمٌ يُعْرَفُ بِهِ مَنْ يَّرِثُ مَنْ لًأ يَرِثُ وَ مِقْدَارُ مَا لِكُلِّ وَارِثٍ )’’ فرائض سے مراد وہ علم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون وارث ہے ‘ کون نہیں اور ہر وارث کا کیا حق ہے۔‘‘
وراثت کی تقسیم کو ’’فرائض‘‘ کا نا اس دیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ نے اسے فرائض کہا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(فَرِضَةً مِّنَ اللهِ) اور ارشاد نبوی ہے:[تَعًلِّمُوا الفَرَائضَ] يا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر احکامات مثلاً نماز ‘روزہ‘حج یا زکوٰۃ وغیرہ کے بر عکس وراثت کے احکام میں تفصیلات خود بیان فرمائی ہیں‘ ہر حقدار کا حصہ مقرر فرما دیا ہے اس لیے اسے فرائض یعنی مقدر اور مقرر کیے ہوئے حقوق کہا جاتا ہے۔
٭وراثت کی مشروعیت :اسلام کے انسانیت پر بے شمار احسانات میں سے ایک وراثت کی تقسیم کے عادلانہ قوائد و ضوابط بھی ہیں ‘ اسلام سے قبل طاقت اور قوت ہی سکہ ٔرائج الوقت تھا۔ لہذا طاقت ور تمام آبائی جائیداد کے وارث بنتے جبکہ کمزور و ناتواں افراد خصوصا عورتیں اس سے بالکل محروم رکھے جاتے۔جیسا کہ ابتدائے اسلام میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے پھر پروردگار عالم نے انسانیت پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے وراثت کی تقسیم کے قوانین نازل فرما کر اس قدیم ظلم کا خاتمہ فر ما دیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا)(النساء:4/7)’’ جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں ‘وہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کابھی ‘ یہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں ۔‘‘ نیز ضعیف و کمزور بچوں کے بارے میں فرمایا(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ)(النساء4/11)’’ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘
٭وراثت کی شرائط ‘اسباب اور موانع : اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے ‘اپنے حق کے حصول کیلئے چند شرائط ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے ‘ چند اسباب ہیں جن کے بغیر حقدار بننے کا دعوی نہیں کر سکتا اور چند رکاوٹیں ہیں جو کسی حقدار کو اس کے حق کی وصولی میں مانع ہیں ‘ان کی تفصیل اس طرح ہے
شرائط: 1میت (مورث) کی موت کا یقینی علم ہونا۔2 وارث کا اپنے مورث کی موت کے وقت زندہ ہونا ۔3 وراثت کے موانع کا نہ پایا جانا۔
اسباب:وراثت کے حصول کے لیے درج ذیل تین اسباب ہیں:
نسبی قرابت :جیسے باپ‘ دادا ‘بیٹا‘ پوتا وغیرہ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ) (النساء) 4/33) ’’ہر مال میں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ‘ہم نے حقدار مقرر کر دیے ہیں۔‘‘
٭مسنون نکاح:کسی عورت اور مرد کا مسنون نکاح بھی ان کے ایک دوسرے کے وارث بننے کا سبب ہے ، خواہ اس نکاح کے بعد عورت کی رخصتی اور مرد سے خلوت ِصحیحہ ہو یا نہ ہو۔ارشاد باری تعالی ہے (وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ)(النساء :4/14)
٭ولاء:غلام کو آزاد کرنے والا اپنے غلام کا وارث بنتا ہے اور اگر آزاد کرنے والے کا کوئی وارث نہ ہو تو آزاد ہونے والا غلام اس کا وارث بنتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «إِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»’’یقیناً ولاء (وراثت کا حق) اس کے لیے ہے جس نے آزاد کیا۔‘‘ (صحيح البخارى ~الفرائض~ باب الولاء لمن أعتق وميراث اللقيط~ حديث:6756)
موانع:درج ذیل امور وارث کو اس کے حق سے محروم کر دیتے ہیں:
٭قتل : اگر وارث اپنے مورث کو ظلماً قتل کر دے تو وہ محروم کر دیتے ہیں:
٭کفر:کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر رشتہ دار کا وارث نہیں بنتا۔
٭غلامی:غلام وارث نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود کسی کی ملکیت ہوتا ہے۔
٭زنا:حرامی اولاد اپنے زانی باپ کی وارث نہیں بنتی۔
٭لعان:لعان کی صورت میں جدائی کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے۔
٭وہ بچہ جو پیدائش کے وقت چیخ وغیرہ نہ مارے یعنی اس میں زندگی کے آثار نہ ہوں تو وہ بھی وارث نہیں بنتا۔
تمہید باب
میت کے تمام تعلق دار جو اصحاب الفروض یا عصبہ نہیں ہوتے۔انہیں زوی الارحام سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی بیٹیوں کی اولاد پوتیوں بہنوں نانا نانی اور مادری بھایئوں کی اولاد وغیرہ۔
صالح بن یحییٰ بن مقدام اپنے والد سے وہ دادا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: ”میں اس کا وارث ہوں جس کا کوئی وارث نہ ہو، میں اس کا قیدی چھڑاؤں گا اور اس کے مال کا وارث بنوں گا۔ اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، وہ اس کا قیدی چھڑائے گا اور اس کے مال کا وارث بنے گا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ ان احادیث میں حکومت اسلامیہ کی اقتصادی پالیسی کا ایک پہلو بیان ہواہے۔ کہ وہ اپنی رعیت کو معاشی فلاح وبہبود کی ہر طرح سے ذمہ دار ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مقروض مرجائے تو ہو اس کا قرضہ ادا کرے گی۔ بے سہارا چھوٹے بچوں اور بیوائوں کی کفالت کرے گی۔ جبکہ وراثت رشتہ داروں میں تقسیم ہوگی۔ 2۔ ماموں ذوی الارحام میں سے ہے۔ دوسرے وارثوں کے نہ ہونے کی صورت میں وہی وارث ہے۔ اور اسی طرح اگر بھانجے کے ذمے کوئی مالی حقوق آتے ہوں۔ تو وہ ان کی ادایئگی کا بھی پابند ہے۔ اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بحیثیت مسلمان انسان کو اپنے قریبی بعیدی سبھی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ مظبوط رکھنا چاہیے۔ جیسے جی یہی لوگ اس کے معاون و مددگار اور اس کے پیچھے اس کی اولاد کے کفیل بنتے ہیں۔ 3۔ اگر کوئی شخص لاوارث ہوتو حکومت اسلامیہ (بیت المال) اس کی وارث ہوگی۔ اور ایسے شخص پر لازم آنے والے مالی حقوق بھی حکومت ادا کرے گی۔ 4۔ یہ رفاحی اصول مسلمانوں اور مومنوں کے لئے ہیں۔ جو بلاجواز حکومت سے صدقات لینے کے روادار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ایمان انسان کے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرتا ہے۔ اس لئے یہ نہ سمجھا جائے کہ ان رعایتوں کی وجہ سے لوگ محنت نہیں کریں گے اور حکومت ہی پر بوجھ بن کر رہ جایئں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مقدام ؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث میں ہوں اس کے قیدیوں کو چھڑاؤں گا، اور اس کے مال کا وارث ہوں گا، اور ماموں اس کا وارث ہے۱؎ جس کا کوئی وارث نہیں وہ اس کے قیدیوں کو چھڑائے گا، اور اس کے مال کا وارث ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی اپنے بھانجے کا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Miqdam (RA): I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: I am the heirs of Him who has none, freeing him from his liabilities, and inheriting what he possesses. A maternal uncle is the heir of Him who has none, freeing him from his liabilities, and inheriting his property.