کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: خلیفہ اپنے جانشین کا نام دے
)
Abu-Daud:
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai' Wal-Imarah)
(Chapter: Regarding The Appointment Of The Khalifah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2939.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے (جب وہ زخمی کیے گئے تو انہیں اپنا جانشین بنا جانے کے متعلق کہا گیا، تو انہوں نے) کہا: اگر میں (اپنا) جانشین نہ بناؤں تو (صحیح ہے) کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جانشیں نہیں بنایا تھا اور اگر بنا جاؤں تو بھی (درست ہے) کیونکہ سیدنا ابوبکر ؓ جانشین بنا گئے تھے۔ سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ اور سیدنا ابوبکر ؓ ہی کا نام لیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے برابر کسی کو نہیں سمجھیں گے اور وہ کسی کو خلیفہ مقرر کرنے والے نہیں۔
تشریح:
بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے برابر اور ہم پلہ بنوآدم میں سے کوئی نہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلیل القدر چھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین مقرر فرما دیئے۔ کہ انھیں میں سے کسی کو خلفیہ بنا دیا جائے۔ اور وہ تھے۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد ازاں مذید وضاحت بھی فرمائی۔ کہ انہوں نے اپنے بعد کسی کا نام تجویز کیوں نہیں کیا؟ جب لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے جانشین کا نام تجویز کریں۔ تو آپ ﷺنے جواب دیا۔ میں اس کام کےلئے ان لوگوں سے زیادہ مستحق کسی کونہیں سمجھتا۔ کہ رسول اللہ ﷺ جب رخصت ہوئے تو ان سے راضی تھے۔ پھر امارت کا فیصلہ کرنے کےلئے ان حضرات کے نام گنوائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور یہ بھی کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن وہ امارت کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔ (صحیح البخاري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البعیة، حدیث:3700) اس موقع پر ایک شخص نے کہا آپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کرادیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اس بات پر تیرا مقصود اللہ کی رضا نہیں، ایک اور صحیح روایت کے مطابق آپ نے اس کو جواب دیا اللہ تجھے ہلاک کرے تو نے اللہ کی رضا کےلئے ایسا نہیں کہا۔ کیا میں ایسے آدمی کو خلیفہ بنا دوں جو صحیح طریق سے بیوی کو طلاق بھی نہیں دے سکتا؟ آپ کو اندازہ تھا کہ شوریٰ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کرے گی۔ اس لئے آپ نے دونوں کو بلاکر وصیت کی پھر حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکر کہا۔ آپ تین دن تک لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اور یہ لوگ اپنے گھر میں اپنا اجتماع کریں۔ جب سب ایک شخص پر اتفاق کرلیں۔ تو جو کوئی مخالفت کرے اسے قتل کر دیں۔ یہ بات سن کر یہ حضرات باہر آئے۔ تو آپ نے فرمایا۔ اگر یہ لوگ اجلح (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو ولی الامر بنا دیں تو وہ انہیں لے کر جادہ مستقیم پر گامزن رہیں گے۔ بیٹے نے کہا۔ آپ ان (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو نامزد کیوں نہیں کردیتے (کیونکہ جس طرح اوپر بیان ہوا کہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفویض کرنے کی پیش کش کرچکے تھے) فرمایا مجھے پسند نہیں کہ میں زندگی میں بھی یہ بوجھ اٹھائوں اور مرنے کے بعد بھی (فتح الباري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البیعة: 87/7) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ کہ ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ یہ لوگ (جن پر مشتمل کمیشن آپ نے بنایا تھا۔) آپکی طرف آئے تو آپ نے متوجہ ہوکر ان کی طرف فرمایا میں نے لوگوں کے معاملے کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر کوئی اختلاف ہوسکتا ہے تو تم لوگوں میں ہی ہوگا۔ یہ معاملہ اب تمہارے سپرد ہے۔ (حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مویشیوں کے پاس (مدینہ) سے باہر تھے۔ اس کے بعد فرمایا جب تمہاری قوم تین اشخاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کو امیر نہیں بنائے گی۔ تو جو تم میں سے امیر بنے وہ اپنے اقرباء کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کرے۔ اٹھو اور مشورہ کرو۔ پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ ابھی توقف کرو۔ اگرمیرا وقت آجائے تو تین دن تک حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کروایئں۔ اور تم میں سے جو کوئی بھی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر امارت پر مسلط ہو اس کی گردن اڑادو۔ (فتح الباری حوالہ سابقہ) اس تمام واقع سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ درج زیل ہیں۔ 1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کیا۔ اور اپنی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تلقین کردہ جانشین کے تعین کاحق استعمال کرنے کی بجائے مکمل طور پر آذاد شوریٰ کے ذریعے سے امیر کاتعین کاراستہ دیکھایا۔ 2۔ آپ نے شوریٰ کےلئے جو کمیشن تجویز کیا۔ وہ ان لوگوں پر مشتمل تھا۔ جن کا کردار ایسا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ان سے راضی تھے۔ 3۔ یہ لوگ ایسے تھے کہ ان لوگوں کے متفقہ فیصلے پر پوری امت کا اتفاق تھا۔ اور ان کے اختلاف سے امت میں تفرقہ پڑ سکتا تھا۔ یعنی یہی پوری امت کے معتمد ترین نمایئندے تھے۔ 4۔ آپ نے اپنے بیٹے کو خلافت دیئے جانے کے امکان کو بھی ختم کردیا۔ 5۔ آپ کوجس نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بیتے کو جانشین بنادیں۔ آپ ان پر سخت ناراض ہوئے۔ اسے اللہ کے غضب سے ہلاک ہونے کی بدعا دی۔ اور اس بات کو اللہ کی ناراضگی کا سبب گردانا۔ 6۔ آپ کو لوگوں کے انتخاب کا صحیح اندازہ تھا۔ اس لئے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعد ازاں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امارت پر فائز ہوجانے کے بعد معاملات چلانے کے معاملے میں ضروری نصیحت فرمائی۔ اور وہ یہ تھی کہ جس طرح میں نے اپنے بیٹے کو خلافت سے دور رکھا ہے۔ اسی طرح امور خلافت چلانے میں بھی اقرباء کو شامل نہ کیا جائے۔ 7۔ آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ امت میں اختلاف کا ایک اہم سبب قیادت کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔ گویا آپ نے ان زعماء کو بھی اتفاق واختلاف کا ذمہ دار قرار دیا۔ 8۔ آپ نے وسیع تر دائرے تک مشاورت کی غرض سے اس کمیشن کو کافی وقت دیا۔ اور یہ کہا کہ جائو اور فورا مشاورت کرو۔ اس کمیشن کو واضح طور پر امیر کے تعین کا طریق کار یاد کرا دیا۔ 9۔ یہ بھی واضح ہدایت دی کہ معتمد نمایندے فیصلہ کرلیں۔ تو انتشار پھیلانے والا باغی متصور ہوگا۔ اور اس کی سزا موت ہوگی۔ 10۔ یہ بھی واضح کردیا کہ لوگوں کی مشاورت کے بغیر حکومت پر قبضہ کرنے والا بھی باغی ہوتا ہے۔ اور اس کی سزا بھی موت ہے۔
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے (جب وہ زخمی کیے گئے تو انہیں اپنا جانشین بنا جانے کے متعلق کہا گیا، تو انہوں نے) کہا: اگر میں (اپنا) جانشین نہ بناؤں تو (صحیح ہے) کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جانشیں نہیں بنایا تھا اور اگر بنا جاؤں تو بھی (درست ہے) کیونکہ سیدنا ابوبکر ؓ جانشین بنا گئے تھے۔ سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ اور سیدنا ابوبکر ؓ ہی کا نام لیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے برابر کسی کو نہیں سمجھیں گے اور وہ کسی کو خلیفہ مقرر کرنے والے نہیں۔
حدیث حاشیہ:
بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے برابر اور ہم پلہ بنوآدم میں سے کوئی نہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلیل القدر چھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین مقرر فرما دیئے۔ کہ انھیں میں سے کسی کو خلفیہ بنا دیا جائے۔ اور وہ تھے۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد ازاں مذید وضاحت بھی فرمائی۔ کہ انہوں نے اپنے بعد کسی کا نام تجویز کیوں نہیں کیا؟ جب لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے جانشین کا نام تجویز کریں۔ تو آپ ﷺنے جواب دیا۔ میں اس کام کےلئے ان لوگوں سے زیادہ مستحق کسی کونہیں سمجھتا۔ کہ رسول اللہ ﷺ جب رخصت ہوئے تو ان سے راضی تھے۔ پھر امارت کا فیصلہ کرنے کےلئے ان حضرات کے نام گنوائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور یہ بھی کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن وہ امارت کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔ (صحیح البخاري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البعیة، حدیث:3700) اس موقع پر ایک شخص نے کہا آپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کرادیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اس بات پر تیرا مقصود اللہ کی رضا نہیں، ایک اور صحیح روایت کے مطابق آپ نے اس کو جواب دیا اللہ تجھے ہلاک کرے تو نے اللہ کی رضا کےلئے ایسا نہیں کہا۔ کیا میں ایسے آدمی کو خلیفہ بنا دوں جو صحیح طریق سے بیوی کو طلاق بھی نہیں دے سکتا؟ آپ کو اندازہ تھا کہ شوریٰ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کرے گی۔ اس لئے آپ نے دونوں کو بلاکر وصیت کی پھر حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکر کہا۔ آپ تین دن تک لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اور یہ لوگ اپنے گھر میں اپنا اجتماع کریں۔ جب سب ایک شخص پر اتفاق کرلیں۔ تو جو کوئی مخالفت کرے اسے قتل کر دیں۔ یہ بات سن کر یہ حضرات باہر آئے۔ تو آپ نے فرمایا۔ اگر یہ لوگ اجلح (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو ولی الامر بنا دیں تو وہ انہیں لے کر جادہ مستقیم پر گامزن رہیں گے۔ بیٹے نے کہا۔ آپ ان (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو نامزد کیوں نہیں کردیتے (کیونکہ جس طرح اوپر بیان ہوا کہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفویض کرنے کی پیش کش کرچکے تھے) فرمایا مجھے پسند نہیں کہ میں زندگی میں بھی یہ بوجھ اٹھائوں اور مرنے کے بعد بھی (فتح الباري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البیعة: 87/7) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ کہ ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ یہ لوگ (جن پر مشتمل کمیشن آپ نے بنایا تھا۔) آپکی طرف آئے تو آپ نے متوجہ ہوکر ان کی طرف فرمایا میں نے لوگوں کے معاملے کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر کوئی اختلاف ہوسکتا ہے تو تم لوگوں میں ہی ہوگا۔ یہ معاملہ اب تمہارے سپرد ہے۔ (حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مویشیوں کے پاس (مدینہ) سے باہر تھے۔ اس کے بعد فرمایا جب تمہاری قوم تین اشخاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کو امیر نہیں بنائے گی۔ تو جو تم میں سے امیر بنے وہ اپنے اقرباء کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کرے۔ اٹھو اور مشورہ کرو۔ پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ ابھی توقف کرو۔ اگرمیرا وقت آجائے تو تین دن تک حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کروایئں۔ اور تم میں سے جو کوئی بھی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر امارت پر مسلط ہو اس کی گردن اڑادو۔ (فتح الباری حوالہ سابقہ) اس تمام واقع سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ درج زیل ہیں۔ 1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کیا۔ اور اپنی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تلقین کردہ جانشین کے تعین کاحق استعمال کرنے کی بجائے مکمل طور پر آذاد شوریٰ کے ذریعے سے امیر کاتعین کاراستہ دیکھایا۔ 2۔ آپ نے شوریٰ کےلئے جو کمیشن تجویز کیا۔ وہ ان لوگوں پر مشتمل تھا۔ جن کا کردار ایسا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ان سے راضی تھے۔ 3۔ یہ لوگ ایسے تھے کہ ان لوگوں کے متفقہ فیصلے پر پوری امت کا اتفاق تھا۔ اور ان کے اختلاف سے امت میں تفرقہ پڑ سکتا تھا۔ یعنی یہی پوری امت کے معتمد ترین نمایئندے تھے۔ 4۔ آپ نے اپنے بیٹے کو خلافت دیئے جانے کے امکان کو بھی ختم کردیا۔ 5۔ آپ کوجس نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بیتے کو جانشین بنادیں۔ آپ ان پر سخت ناراض ہوئے۔ اسے اللہ کے غضب سے ہلاک ہونے کی بدعا دی۔ اور اس بات کو اللہ کی ناراضگی کا سبب گردانا۔ 6۔ آپ کو لوگوں کے انتخاب کا صحیح اندازہ تھا۔ اس لئے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعد ازاں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امارت پر فائز ہوجانے کے بعد معاملات چلانے کے معاملے میں ضروری نصیحت فرمائی۔ اور وہ یہ تھی کہ جس طرح میں نے اپنے بیٹے کو خلافت سے دور رکھا ہے۔ اسی طرح امور خلافت چلانے میں بھی اقرباء کو شامل نہ کیا جائے۔ 7۔ آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ امت میں اختلاف کا ایک اہم سبب قیادت کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔ گویا آپ نے ان زعماء کو بھی اتفاق واختلاف کا ذمہ دار قرار دیا۔ 8۔ آپ نے وسیع تر دائرے تک مشاورت کی غرض سے اس کمیشن کو کافی وقت دیا۔ اور یہ کہا کہ جائو اور فورا مشاورت کرو۔ اس کمیشن کو واضح طور پر امیر کے تعین کا طریق کار یاد کرا دیا۔ 9۔ یہ بھی واضح ہدایت دی کہ معتمد نمایندے فیصلہ کرلیں۔ تو انتشار پھیلانے والا باغی متصور ہوگا۔ اور اس کی سزا موت ہوگی۔ 10۔ یہ بھی واضح کردیا کہ لوگوں کی مشاورت کے بغیر حکومت پر قبضہ کرنے والا بھی باغی ہوتا ہے۔ اور اس کی سزا بھی موت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ عمر ؓ نے کہا: اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد نہ کروں (تو کوئی حرج نہیں) کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا۱؎ اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کر دوں (تو بھی کوئی حرج نہیں) کیونکہ ابوبکر ؓ نے خلیفہ مقرر کیا تھا۔ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! انہوں نے صرف رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کا ذکر کیا تو میں نے سمجھ لیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے برابر کسی کو درجہ نہیں دے سکتے اور یہ کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کریں گے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان: ”کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا۔“ کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے لئے کسی متعین شخص کا نام نہیں لیا تھا، بلکہ صرف اتنا کہہ کر رہنمائی کر دی تھی کہ «الأئمةُ من قريشٍ» چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی سنت نبوی کو اپنا کر کبار صحابہ میں سے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے لئے چھ ناموں کا اعلان کیا اور کہا کہ ان میں سے صحابہ جس پر اتفاق کر لیں وہی میرے بعد ان کا خلیفہ ہے، چنانچہ سبھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ پر اتفاق کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): 'Umar said: I shall not appoint a successor, for the Messenger of Allah (ﷺ) did not appoint a successor. If I appoint a successor (I can do so), for Abu Bakr (RA) had appointed a successor. He Ibn 'Umar) said: I swear by Allah, he did not mention (anyone) but the Messenger of Allah (ﷺ) and Abu Bakr. So I learnt he would not equate anyone with the Messenger of Allah (ﷺ), for he did not appoint any successor.