باب: ان حضرات کے دلائل جو قائل ہیں کہ مستحاضہ نمازیں جمع کرے او رہر نماز...
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Those Who State: She Should Combine Between Two Prayers, And Perform One Ghusl Before Both Of Them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
294.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ آنے لگا تو اسے حکم دیا گیا کہ نماز عصر کو جلدی اور ظہر کو مؤخر کرے۔ اور ان دونوں (نمازوں) کے لیے ایک غسل کرے۔ اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی کرے اور ان دونوں کے لیے ایک غسل کرے اور فجر کی نماز کے لیے ایک غسل کرے۔ میں نے (یعنی شعبہ نے) عبدالرحمٰن سے کہا: کیا یہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے؟ انہوں نے کہا: میں تجھے جو بھی بیان کرتا ہوں وہ نبی کریم ﷺ ہی کی حدیث ہوتی ہے۔
تشریح:
یہ عورت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا تھیں جیسے کہ آئندہ حدیث میں آرہا ہے۔ اور یہ غسل مستحب ہے۔ ورنہ ایک ہی غسل کافی ہے جیسے کہ اگلے باب کی احادیث میں آرہا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب عذر اور مریض، نمازوں کو جمع بھی کرسکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقوّاه ابن التركماني. وقوله: فأُمرت... محمول عند المحدِّثين والأصوليين على أن الآمر هو النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ومما يشهد له ما بعده) . إسناده: حدثنا عبيد الله بن معاذ: ثني أبي: نا شعبة عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث أخرجه الطيالسي (رقم 1419) قال: حدثنا شعبة... به بلفظ: فأُمِرت. قلت: من أمرها؟ لنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قال: لست أحدثك عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شيئاً. قالت: فأمرت ... الحديث. وهكذا أخرجه الدارمي (1/198- 199) من طريق هاشم بن القاسم: ثنا شعبة... به. وأخرجه البيهقي (1/352) من طريق الطيالسي. وأخرجه النسائي (1/65) ، والطحاوي (1/60) ، وأحمد (6/172) ، والبيهقي أيضا من طرق أخرى عن شعبة... به، دون قوله: فقلت لعبد الرحمن... إلخ. وفي رواية للبيهقي: فأمرها النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فصرح بأن الآمر هو النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ لكن البيهقي حكم بخطأ هذه الرواية، ثم قال: قال أبو بكر بن إسحاق: قال بعض مشايخنا: لم يسند هذا الخبر غير محمد ابن إسحاق. وشعبة لم يذكر النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وأنكر أن يكون الخبر مرفوعاً. قلت: وتعقبه ابن التركماني بقوله: قلت: امتنع عبد الرحمن من إسناد الأمر إلى النبي عليه السلام صريحاً. ولا شك أنه إذا سمع: فأمِرَتْ... ليس له أن يقول: فأمرها النبي عليه السلام؛ لأن اللفظ الأول مسند إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بطريق اجتهادي لا بالصريح؛ فليس له أن ينقله بلى ما هو صريح، ولا يلزم من امتناعه من صريح بالنسبة إلى النبي عليه السلام أن لا يكون مرفوعاً بلفظ: أُمِرَتْ... على ما عرف من ترجيح أهل الحديث والأصول في هذه الصيغة أنها مرفوعة، فتأمله! فقد يتوهم من لا خبرة له من كلام البيهقي وغيره أنه من الموقوف الذي لا تقوم به الحجة. وبهذا يُعْلَمُ أن ابن إسحاق لم يخالف شعبة في رفعه، بل رفعه ابن إسحاق صريحاً، ورفعه شعبة دلالة، ورفعه هو أيضا صريحاً في رواية الحسن بن سهل عن عاصم عنه . قلت: ورواية ابن إسحاق؛ قد أخرجها المصنف عقيب هذا الحديث؛ لكن ابن إسحاق عنعنه؛ وهو مدلس، وقد زاد فيه بعض الأحرف مما لم ترد في هذا الحديث؟! ولا في حديث ابن عيينة الآتي بعد هذا؛ ومن أجل ذلك أوردناه في الكتاب الآ خر (رقم 51) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ آنے لگا تو اسے حکم دیا گیا کہ نماز عصر کو جلدی اور ظہر کو مؤخر کرے۔ اور ان دونوں (نمازوں) کے لیے ایک غسل کرے۔ اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی کرے اور ان دونوں کے لیے ایک غسل کرے اور فجر کی نماز کے لیے ایک غسل کرے۔ میں نے (یعنی شعبہ نے) عبدالرحمٰن سے کہا: کیا یہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے؟ انہوں نے کہا: میں تجھے جو بھی بیان کرتا ہوں وہ نبی کریم ﷺ ہی کی حدیث ہوتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ عورت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا تھیں جیسے کہ آئندہ حدیث میں آرہا ہے۔ اور یہ غسل مستحب ہے۔ ورنہ ایک ہی غسل کافی ہے جیسے کہ اگلے باب کی احادیث میں آرہا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب عذر اور مریض، نمازوں کو جمع بھی کرسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ ہوا تو اسے حکم دیا گیا کہ عصر جلدی پڑھے اور ظہر میں دیر کرے، اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور مغرب کو مؤخر کرے، اور عشاء میں جلدی کرے اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور فجر کے لیے ایک غسل کرے۔ شعبہ کہتے ہیں: تو میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے پوچھا: کیا یہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے؟ اس پر انہوں نے کہا: میں جو کچھ تم سے بیان کرتا ہوں وہ نبی اکرم ﷺ ہی سے مروی ہوتا ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اصل میں عبارت یوں ہے: «لا أحدثك إلا عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم شيء» جو معنوی اعتبار سے یوں ہے: «لاأحدثك بشيء إلا عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم» ترجمہ اسی اعتبار سے کیا گیا ہے، اور بعض نسخوں میں عبارت یوں ہے: «لاأحدثك عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بشيء» ، یعنی غصہ سے کہا کہ: ’’ اب میں تم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ روایت نہیں کیا کروں گا۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): A woman had a prolonged flow of blood in the time of the Apostle of Allah (ﷺ). She was commanded to advance the afternoon prayer and delay the noon prayer, and to take a bath for them only once; and to delay the sunset prayer and advance the night prayer and to take a bath only once for them; and to take a bath separately for the dawn prayer. I (Shu'bah) asked Abdur Rahman (RA): (Is it) from the Prophet (ﷺ)? I do not report to you anything except from the Prophet (ﷺ).