کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: رعیت کے تعلق سے حاکم کے فرائض کا بیان اور یہ کہ وہ عوام کو ملنے سے گریز نہ کرے
)
Abu-Daud:
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai' Wal-Imarah)
(Chapter: Regarding Matters Of Those Who Are Under Imam, His Duties, And Him Secluding Himself From Them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2950.
جناب مالک بن اوس بن حدثان ؓ نے بیان کیا کہ ایک دن سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے مال فے کا ذکر کیا اور کہا: اس مال کا میں تم سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور نہ ہم میں سے کوئی ایک کسی دوسرے پر زیادہ حق رکھتا ہے، سوائے اس کے کہ ہم اللہ کی کتاب کی رو سے اور رسول اللہ ﷺ کی تقسیم کے مطابق اپنے اپنے مرتبہ پر ہیں، یا تو کوئی اسلام قبول کرنے میں سبقت کر چکا ہے یا کوئی اسلام کے لیے اپنی بہادری کے جوہر دکھانے والا ہے یا کوئی عیال دار ہے یا کوئی حاجت مند (لہٰذا ان ہی اعتبارات سے یہ مال تقسیم کیا جاتا ہے)۔
تشریح:
دنیا میں اولیت اسلام کو دل وجان سے قبول کرلینے کی اولیت میں ہے یا اس کے لئے جان کی بازی لڑانے میں ہے۔ آخرت میں بھی درجات اسی اعتبار سے ملیں گے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سب سے اولین میں سے ہوں گے۔ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پالیسی دنیا کے لئے ماڈل ہے۔ آپ اس پالیسی کے حوالے سے اپنے احتساب کو خندہ پیشانی سے قبول فرماتے تھے۔ بلکہ احتساب کی حوصلہ افزائی کرتے۔
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
جناب مالک بن اوس بن حدثان ؓ نے بیان کیا کہ ایک دن سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے مال فے کا ذکر کیا اور کہا: اس مال کا میں تم سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور نہ ہم میں سے کوئی ایک کسی دوسرے پر زیادہ حق رکھتا ہے، سوائے اس کے کہ ہم اللہ کی کتاب کی رو سے اور رسول اللہ ﷺ کی تقسیم کے مطابق اپنے اپنے مرتبہ پر ہیں، یا تو کوئی اسلام قبول کرنے میں سبقت کر چکا ہے یا کوئی اسلام کے لیے اپنی بہادری کے جوہر دکھانے والا ہے یا کوئی عیال دار ہے یا کوئی حاجت مند (لہٰذا ان ہی اعتبارات سے یہ مال تقسیم کیا جاتا ہے)۔
حدیث حاشیہ:
دنیا میں اولیت اسلام کو دل وجان سے قبول کرلینے کی اولیت میں ہے یا اس کے لئے جان کی بازی لڑانے میں ہے۔ آخرت میں بھی درجات اسی اعتبار سے ملیں گے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سب سے اولین میں سے ہوں گے۔ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پالیسی دنیا کے لئے ماڈل ہے۔ آپ اس پالیسی کے حوالے سے اپنے احتساب کو خندہ پیشانی سے قبول فرماتے تھے۔ بلکہ احتساب کی حوصلہ افزائی کرتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب ؓ نے ایک دن فے (بغیر جنگ کے ملا ہوا مال) کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اس فے کا تم سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا ہم میں سے اس کا دوسرے سے زیادہ حقدار ہے، لیکن ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی تقسیم کے اعتبار سے اپنے اپنے مراتب پر ہیں، جو شخص اسلام لانے میں مقدم ہو گا یا جس نے (اسلام کے لیے) زیادہ مصائب برداشت کئے ہونگے یا عیال دار ہو گا یا حاجت مند ہو گا تو اسی اعتبار سے اس میں مال تقسیم ہو گا، ہر شخص کو اس کے مقام و مرتبہ اور اس کی ضرورت کے اعتبار سے مال فے تقسیم کیا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar ibn al-Khattab (RA): Malik ibn Aws ibn al-Hadthan said: One day 'Umar (RA) ibn al-Khattab mentioned the spoils of war and said: I am not more entitled to this spoil of war than you; and none of us is more entitled to it than another, except that we occupy our positions fixed by the Book of Allah, Who is Great and Glorious, and the division made by the Apostle of Allah (ﷺ), people being arranged according to their precedence in accepting Islam, the hardship they have endured their having children and their need.