کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: غنیمت اور فے لینے والوں کے نام ضبط تحریر میں لانا
)
Abu-Daud:
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai' Wal-Imarah)
(Chapter: Registering The Names Of Those Who Are Given Something)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2961.
سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؓ نے لکھا: جو شخص یہ پوچھے کہ مال فے کہاں کہاں خرچ ہوتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا مصرف وہی ہے جس کا سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فیصلہ کیا تھا اور اہل ایمان نے بھی اسے نبی کریم ﷺ کے فرمان کی روشنی میں عدل پر مبنی پایا تھا۔ آپ ﷺ نے سیدنا عمر ؓ کے بارے میں فرمایا تھا: ”اللہ تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر رکھ دیا ہے۔“ سیدنا عمر ؓ نے مال فے کے عطایا کو مسلمانوں کے لیے خاص کیا ہوا تھا اور دیگر مذاہب والوں کے لیے امن و امان کا عہد دیا تھا بعوض اس جزیہ کے جو ان سے لیا جاتا تھا اور ان کا خمس یا غنیمت میں کوئی حصہ نہ تھا۔
تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ لیکن امر واقع یہی تھا چونکہ غیر مسلم کا جہادی امور اورملک کے دفاع میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ لہذا ان کے لئے حق الخدمت بھی نہیں تھا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لجهالة عين ابن عدي. ثم هو منقطع. قال المنذري: عمر بن عبد العزيز لم يدرك عمر بن الخطاب . وبالانقطاع أعله البيهقي) . إسناده: حدثنا محمود بن خالد: ثنا محمد بن عائذ: ثنا الوليد: ثنا عيسى ابن يونس فيما حدثه ابن لعدي بن عدي الكندي...
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ وله علتان: جهالة ابن عدي؛ الذي لم يسم، والانقطاع بين العمريْن، قال المنذري: في رواته مجهول. وعمر بن عبد العزيز لم يدرك عمر بن الخطاب. والمرفوع منه مرسل .
قلت: والمرفوع منه صحيح؛ لأن له شواهد موصولة، أحدها في الصحيح (2623) . والحديث أخرجه البيهقي (6/295) من طريق المؤلف، وأعله بالانقطاع.
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؓ نے لکھا: جو شخص یہ پوچھے کہ مال فے کہاں کہاں خرچ ہوتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا مصرف وہی ہے جس کا سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فیصلہ کیا تھا اور اہل ایمان نے بھی اسے نبی کریم ﷺ کے فرمان کی روشنی میں عدل پر مبنی پایا تھا۔ آپ ﷺ نے سیدنا عمر ؓ کے بارے میں فرمایا تھا: ”اللہ تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر رکھ دیا ہے۔“ سیدنا عمر ؓ نے مال فے کے عطایا کو مسلمانوں کے لیے خاص کیا ہوا تھا اور دیگر مذاہب والوں کے لیے امن و امان کا عہد دیا تھا بعوض اس جزیہ کے جو ان سے لیا جاتا تھا اور ان کا خمس یا غنیمت میں کوئی حصہ نہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ لیکن امر واقع یہی تھا چونکہ غیر مسلم کا جہادی امور اورملک کے دفاع میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ لہذا ان کے لئے حق الخدمت بھی نہیں تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عدی بن عدی کندی کے ایک لڑکے کا بیان ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا کہ جو کوئی شخص پوچھے کہ مال فے کہاں کہاں صرف کرنا چاہیئے تو اسے بتایا جائے کہ جہاں جہاں عمر بن خطاب ؓ نے حکم دیا ہے وہیں خرچ کیا جائے گا، عمر ؓ کے حکم کو مسلمانوں نے انصاف کے موافق اور نبی اکرم ﷺ کے قول: ”«جعل الله الحق على لسان عمر وقلبه»“ (اللہ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کر دیا ہے) کا مصداق جانا، انہوں نے مسلمانوں کے لیے عطیے مقرر کئے اور دیگر ادیان والوں سے جزیہ لینے کے عوض ان کے امان اور حفاظت کی ذمہ داری لی، اور جزیہ میں نہ خمس (پانچواں حصہ) مقرر کیا اور نہ ہی اسے مال غنیمت سمجھا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کے حق کے طور پر نکالا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar ibn al-Khattab (RA): A son of Adi ibn Adi al-Kindi said that Umar ibn Abdul Aziz (RA) wrote (to his governors): If anyone asks about the places where spoils (fay') should be spent, that should be done in accordance with the decision made by 'Umar ibn al-Khattab (RA). The believers considered him to be just, according to the saying of the Prophet (ﷺ): Allah has placed truth upon 'Umar's tongue and heart. He fixed stipends for Muslims, and provided protection for the people of other religions by levying jizyah (poll-tax) on them, deducting no fifth from it, nor taking it as booty.