باب: ان حضرات کے دلائل جو کہتے ہیں کہ مستحاضہ طہر سے طہرتک ایک غسل کرے
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Those Who Said: She Should Perform Ghusl From One Purity To The Other)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
297.
جناب عدی بن ثابت اپنے والد سے وہ اس (عدی) کے نانا سے وہ نبی کریم ﷺ سے راوی ہیں کہ آپ ﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا ”اپنے حیض کے ایام کی نمازیں چھوڑ دے پھر غسل کرے اور نماز پڑھنا شروع کر دے اور ہر نماز کے لیے وضو کیا کرے۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: عثمان نے زیادہ کیا: ”روزے رکھے اور نماز پڑھے۔“
تشریح:
اور یہی بات دلائل کے اعتبار سے قوی ہے اور جمہور اسی کے قائل ہیں اور دیگر احادیث کہ ہر نماز کے لیے غسل یا دو نمازوں کے لیے غسل یہ سب استحباب کے معنی میں ہے۔ یعنی اس عمل کو نقل، مستحب اور باعث اجر وثواب سمجھا جانا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح) . إسناده: حدثنا محمد بن جعفر بن زياد، وأنا عثمان بن أبي شيبة قال: نا شريك عن أبي اليقظان عن عدي بن ثابت. قال أبو داود: وزاد عثمان: وتصوم وتصلي . وهذا إسناد ضعيف: شريك سيئ الحفظ. وأبو اليقظان اسمه عثمان بن عمَيْر، وهو ضعيف. وثابت- والدعدي- مجهول الحال، كما في الميزان ، و التقريب . وأما ابن حبان؛ فذكره في الثقات على قاعدته . وأما جد عدي؛ فلم يعرف! وقد ذكر في التهذيب خمسة أقوال عن العلماء في اسمه، ولم يستقر الخلاف على شيء يطمئن القلب إليه؛ فلا نطيل الكلام بذكر أقوالهم! ويأتيك قريباً كلام البخاري وابن معين في ذلك. والحديث أخرجه الترمذي (1/220) ، والدارمي (1/202) ، وابن ماجه (1/215) ، والطحاوي (1/61) ، والبيهقي (1/347) من طرق عن شريك... به. وقال الترمذي: تفرد به شريك عن أبي اليقظان . قال: وسألت محمدأ عن هذا الحديث؛ فقلت: عدي بن ثابت عن أبيه عن جده. جد عدي ما اسمه؟ فلم يعرف محمد اسمه. وذكرت لمحمد قول يحيى بن معين: إن اسمه دينار؟ فلم يعبأ به . وأما نقل مجد الدين ابن تيمية في المنتقى (1/239) عن الترمذي أنه قال: حسن !فخطأ؛ بل كلامه السابق يشير إلى تضعيفه له. وقال ابن سيد ا اس في شرحه: وسكت الترمذي عن هذا الحديث، فلم يحكم بشيء، وليس من باب الصحيح، ولا ينبغي أن يكون من باب الحسن؛ لضعف راويه عن عدي بن ثابت . قلت: لكنه من باب الصحيح لغيره؛ لأن له شاهداً من حديث عائشة رضي الله عنها؛ وهو:
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عدی بن ثابت اپنے والد سے وہ اس (عدی) کے نانا سے وہ نبی کریم ﷺ سے راوی ہیں کہ آپ ﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا ”اپنے حیض کے ایام کی نمازیں چھوڑ دے پھر غسل کرے اور نماز پڑھنا شروع کر دے اور ہر نماز کے لیے وضو کیا کرے۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: عثمان نے زیادہ کیا: ”روزے رکھے اور نماز پڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
اور یہی بات دلائل کے اعتبار سے قوی ہے اور جمہور اسی کے قائل ہیں اور دیگر احادیث کہ ہر نماز کے لیے غسل یا دو نمازوں کے لیے غسل یہ سب استحباب کے معنی میں ہے۔ یعنی اس عمل کو نقل، مستحب اور باعث اجر وثواب سمجھا جانا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عدی بن ثابت کے دادا ۱؎ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: ”وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑے رہے، پھر غسل کرے اور نماز پڑھے، اور ہر نماز کے وقت وضو کرے۔ ۲؎ “ ابوداؤد کہتے ہیں: عثمان نے یہ اضافہ کیا ہے کہ ”اور روزے رکھے، اور نماز پڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: امام مزی نے دینار، جدعدی بن ثابت انصاری کی مسند میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے، اور ابوداؤد کا یہ قول نقل کیا ہے: «ھو حدیث ضعیف» (یہ حدیث ضعیف ہے) اور حافظ ابن حجر نے «النکت الظراف» میں لکھا ہے کہ عدی کے دادا کا نام راجح یہ ہے کہ ثابت+بن+قیس ابن الخطیم ہے (تحفۃ الأشراف : ۳۵۴۲) ۲؎: جمہور کا یہی مذہب ہے، اور دلیل سے یہی قوی ہے، اور ہر نماز کے وقت غسل والی روایتیں استحباب پر محمول ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Grand father of Adi ibn Thabit: The Prophet (ﷺ) said about the woman having a prolonged flow of blood: She should abandon prayer during her menstrual period: then she should take a bath and pray. She should perform ablution for every prayer.