Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Choosing An Appropriate Place To Urinate)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3.
ابو تیاح کہتے ہیں کہ مجھے ایک شیخ نے بتایا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ جب بصرہ میں (بحیثیت گورنر) تشریف لائے تو لوگ انہیں سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے سنی ہوئی احادیث بیان کرتے تھے۔۔۔۔ (تو اس ضمن میں) سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے سیدنا ابوموسیٰ ؓ کے نام ایک خط لکھا: جس میں ان سے کچھ مسائل دریافت کیے چنانچہ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے انہیں جواب میں لکھا: میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کی معیت میں تھا تو آپ ﷺ نے پیشاب کرنے کا ارادہ کیا، پس آپ ﷺ ایک دیوار کی جڑ میں نرم مٹی کے پاس آئے اور پیشاب کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کوئی پیشاب کرنا چاہے تو اس کے لیے (مناسب نرم) جگہ تلاش کر لیا کرے۔‘‘
تشریح:
فوائد ومسائل :( 1)۔ یہ روایت اگرچہ ایک مجہول روای(شیخ) کی بنا پر ضعیف ہے مگر دیگر صحیح احادیث سے یہ مسئلہ اسی طرح ثابت ہے کہ پیشاب سے ازحد احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ انسان کا پیشاب نجس عین ہے اگرچہ اس کا جرم نظر نہیں آتا۔ اس سے بچنا اور طہارت حاصل کرنا فرض ہے۔ دودھ پیتا بچہ یا سلس البول کا مریض اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔ پیشاب کرنے کے لیے ایسی جگہ ڈھونڈنی چاہیے جہاں سے چھینٹے پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ جگہ نرم نہ ہو تو نرم کرلی جائے۔ یا ڈھلان ایسی ہو کہ پیشاب کے چھینٹوں سے آلودہ ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ان دونوں قبروں والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور باعث عذاب کوئی بڑی چیز نہیں، ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:218) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب کے چھینٹوں سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتے ، اپنے کپڑوں کو نہیں بچاتے ، پیشاب کرکے (پانی کی عدم موجودگی میں ٹشو یا مٹی وغیرہ سے) استنجا کیے بغیر فورا اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ان کے پاجامے، پتلون، شلوار اور جسم وغیرہ پیشاب سے آلودہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیشاب سے نہ بچنا باعث عذاب اور کبیرہ گناہ ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے ایک اور روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے معاملے میں (طہارت سے غفلت برتنے پر) ہوتا ہے، لہذا اس سے احتیاط کرو۔‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب، الجزء الاول، حدیث:158) (2) اسلام دین نظافت وطہارت ہے جو کہ فرد اور معاشرے کو داخلی و ظاہری ہر لحاظ سے طہارت ونظافت کا پابند بناتا ہے۔ (3) خیرالقرون میں لوگ اصحاب علم وفضل سے مسائل معلوم کیا کرتے تھے اور احادیث کی تحقیق بھی کرتے تھے، نیز دیگر علماء کی بیان کردہ روایات اور فتوے کی جانچ پرکھ کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ (4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی، باوجود یکہ آپ اہل بیت کے ذی وجاہت فرد اور جلیل القدر صحابی تھے، تحقیق مسائل میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مراجعت میں کوئی باک محسوس نہیں فرمایا۔ علمائے حق کی یہی شان ہے اور طلبہ وعوام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: ضعفه البغوي والمنذري والنووي والعراقي) . [إسناده ((*) (تنبيه) : لم يذكر الشيخ رحمه الله أسانيد الأحاديث (1 و 2 و 4) على طريقته في للكتابين الصحيح و الضعيف ، وقد رأينا ذكرها للفائدة. (الناشر) .) : حدثنا موسى: حدثنا حماد: أخبرنا أبو التياح] . وعلته جهالة شيخ أبي التياح الذي لم يُسمّ، وهذه علة واضحة، حتى قال النووي رحمه الله في المجموع () : وإنما لم يصرحْ أبو داود بضعفه؛ لأنه ظاهر ! وقال المنذري في مختصره (1/15) : فيه مجهول . ومنه تعلم أن رمز السيوطي له في الجامع الصغير بأنه: (حديث حسن) !
غير حسن.
وأما قول المناوي في شرحه : رمز المؤلف لحسنه، فإن أراد لشواهده؛ فمسلّم. وإن أراد لذاته؛ فقد قال البغوي وغيره: حديث ضعيف، ووافقه الولي العراقي، فقال:
ضعيف لجهالة راويه !
قلت: لست أدري ما هي هذه الشواهد التي أشار إليها المناوي؟! فإني لم أجد للحديث ولا شاهداً واحداً يأخذ بعضده ويقويه، وما أعتقد أنه يوجد! ويؤيدني في ذلك قول البغوي: إنه حديث ضعيف ؛ فان فيه إشارة إلى أنه لا يوجد ما يقويه؛ وإلا لقال: إسناد ضعيف، ولم يقل: حديث ضعيف. والفرق بينهما واضح بيِّنٌ عند من له اطِّلاع على مصطلحاتهم في هذا الفن
الشريف. وأما قول صاحب عون المعبود - تبعاً للشوكاني-: والحديث فيه مجهول، لكن لا يضر؛ فإن أحاديث الأمر بالتنزه عن البول تفيد ذلك !
يعني: على قاعدة ما لا يقوم الواجب إلا به فهو واجب ؛ فإذا كان التنزه من البول لا يتحقق إلا بارتياد وطلب مكان لين رخو؛ وجب ذلك.لكن هذا كله لا يدل على ثبوت هذه القصة، وهذا الأمر الخاص منه عليه
السلام، فوجب التوقف عن نسبته إليه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حتى تعلم صحته. نعم؛ له شاهد من فعله عليه السلام في الارتياد، لكن سنده ضعيف؛ كما
بينه في المجمع . والحديث رواه الحاكم (3/465- 466) ، والبيهقي (1/93) ، وأحمد (4/396 و399 و 414) ، والطيالسي (رقم 519) ... أتمً منه.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ابو تیاح کہتے ہیں کہ مجھے ایک شیخ نے بتایا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ جب بصرہ میں (بحیثیت گورنر) تشریف لائے تو لوگ انہیں سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے سنی ہوئی احادیث بیان کرتے تھے۔۔۔۔ (تو اس ضمن میں) سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے سیدنا ابوموسیٰ ؓ کے نام ایک خط لکھا: جس میں ان سے کچھ مسائل دریافت کیے چنانچہ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے انہیں جواب میں لکھا: میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کی معیت میں تھا تو آپ ﷺ نے پیشاب کرنے کا ارادہ کیا، پس آپ ﷺ ایک دیوار کی جڑ میں نرم مٹی کے پاس آئے اور پیشاب کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کوئی پیشاب کرنا چاہے تو اس کے لیے (مناسب نرم) جگہ تلاش کر لیا کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل :( 1)۔ یہ روایت اگرچہ ایک مجہول روای(شیخ) کی بنا پر ضعیف ہے مگر دیگر صحیح احادیث سے یہ مسئلہ اسی طرح ثابت ہے کہ پیشاب سے ازحد احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ انسان کا پیشاب نجس عین ہے اگرچہ اس کا جرم نظر نہیں آتا۔ اس سے بچنا اور طہارت حاصل کرنا فرض ہے۔ دودھ پیتا بچہ یا سلس البول کا مریض اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔ پیشاب کرنے کے لیے ایسی جگہ ڈھونڈنی چاہیے جہاں سے چھینٹے پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ جگہ نرم نہ ہو تو نرم کرلی جائے۔ یا ڈھلان ایسی ہو کہ پیشاب کے چھینٹوں سے آلودہ ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ان دونوں قبروں والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور باعث عذاب کوئی بڑی چیز نہیں، ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:218) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب کے چھینٹوں سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتے ، اپنے کپڑوں کو نہیں بچاتے ، پیشاب کرکے (پانی کی عدم موجودگی میں ٹشو یا مٹی وغیرہ سے) استنجا کیے بغیر فورا اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ان کے پاجامے، پتلون، شلوار اور جسم وغیرہ پیشاب سے آلودہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیشاب سے نہ بچنا باعث عذاب اور کبیرہ گناہ ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے ایک اور روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے معاملے میں (طہارت سے غفلت برتنے پر) ہوتا ہے، لہذا اس سے احتیاط کرو۔‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب، الجزء الاول، حدیث:158) (2) اسلام دین نظافت وطہارت ہے جو کہ فرد اور معاشرے کو داخلی و ظاہری ہر لحاظ سے طہارت ونظافت کا پابند بناتا ہے۔ (3) خیرالقرون میں لوگ اصحاب علم وفضل سے مسائل معلوم کیا کرتے تھے اور احادیث کی تحقیق بھی کرتے تھے، نیز دیگر علماء کی بیان کردہ روایات اور فتوے کی جانچ پرکھ کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ (4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی، باوجود یکہ آپ اہل بیت کے ذی وجاہت فرد اور جلیل القدر صحابی تھے، تحقیق مسائل میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مراجعت میں کوئی باک محسوس نہیں فرمایا۔ علمائے حق کی یہی شان ہے اور طلبہ وعوام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوالتیاح کہتے ہیں کہ ایک شیخ نے مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس ؓ جب بصرہ آئے تو وہ ابوموسیٰ ؓ سے حدیثیں بیان کرتے تھے، ابن عباس ؓ نے ابوموسیٰ ؓ کو خط لکھا جس میں وہ ان سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھ رہے تھے، ابوموسیٰ ؓ نے جواب میں انہیں لکھا کہ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، آپ ﷺ نے پیشاب کا ارادہ کیا تو ایک دیوار کی جڑ کے پاس نرم زمین میں آئے اور پیشاب کیا، پھر فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنا چاہے تو وہ اپنے پیشاب کے لیے نرم جگہ ڈھونڈھے۔‘‘ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : تاکہ جسم یا کپڑے پر پیشاب کے چھینٹے نہ پڑنے پائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): Abut Tayyah reported on the authority of a shaykh (an old man): When Abdullah ibn Abbas came to Basrah, people narrated to him traditions from Abu Musa. Therefore Ibn 'Abbas (RA) wrote to him asking him about certain things. In reply Abu Musa wrote to him saying: One day I was in the company of the Apostle of Allah (ﷺ) . He wanted to urinate. Then he came to a soft ground at the foot of a wall and urinated. He (the Prophet ﷺ) then said: If any of you wants to urinate, he should look for a place (like this) for his urination.