کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: خیبر کی زمین کا حکم
)
Abu-Daud:
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai' Wal-Imarah)
(Chapter: What Has Been Related About The Ruling On The Land Of Khaibar)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3013.
جناب بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خیبر عنایت فرما دیا تو آپ ﷺ نے اسے چھتیس حصوں پر تقسیم کیا۔ ہر حصے میں سو حصے تھے۔ چنانچہ ان میں سے آدھے آپ ﷺ کے اتفاقی اخراجات اور آپ ﷺ کے پاس آنے والے مہمانوں اور وفود کے لیے تھے یعنی قلعہ وطیحہ، کتیبہ اور ان کے ساتھ ملحق اراضی وغیرہ اور باقی آدھے مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے، یعنی قلعہ شق اور نطاہ اور ان کے مضافات۔ اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ بھی انہی کے ملحقات و مضافات میں تھا۔
تشریح:
قلعوں کے آخری مجموعے جو مسلمانوں نے بزور شمشیر فتح کیے وہ حصون النطاۃ اور حصون الشق تھے۔ یہاں سے جو یہودی جان بچا کر بھاگ نکلے انہوں نے حصون الکتیبہ کے مجموع میں پناہ لی۔ اس میں تین قلعے تھے۔ سب سے بڑا قموس۔ پھر وطیح اور سلالم تھا۔ جب ان کا محاصرہ ہوا تو یہ قلعے مالکوں نے لڑنے والوں کی جان بخشی اور ان کے بچوں کی آزادی کی شرائط پر خود رسول اللہﷺ کے سپرد کردیئے۔ (عون المعبود۔ باب ما جاء فی حکم ارض خیبر بحوالہ زرقانی) ان کے بعد فدک والوں نے اپنے علاقے حوالے کیے۔ (فتح الباري، کتاب فرض الخمس، باب فرض الخمس) رسول اللہ ﷺ لئے یہی علاقے مخصوص تھے۔ کیونکہ یہی بغیر لڑے آپ کی تحویل میں آئے تھے۔ ان کو مضافات وملحقات کہا گیا۔
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
جناب بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خیبر عنایت فرما دیا تو آپ ﷺ نے اسے چھتیس حصوں پر تقسیم کیا۔ ہر حصے میں سو حصے تھے۔ چنانچہ ان میں سے آدھے آپ ﷺ کے اتفاقی اخراجات اور آپ ﷺ کے پاس آنے والے مہمانوں اور وفود کے لیے تھے یعنی قلعہ وطیحہ، کتیبہ اور ان کے ساتھ ملحق اراضی وغیرہ اور باقی آدھے مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے، یعنی قلعہ شق اور نطاہ اور ان کے مضافات۔ اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ بھی انہی کے ملحقات و مضافات میں تھا۔
حدیث حاشیہ:
قلعوں کے آخری مجموعے جو مسلمانوں نے بزور شمشیر فتح کیے وہ حصون النطاۃ اور حصون الشق تھے۔ یہاں سے جو یہودی جان بچا کر بھاگ نکلے انہوں نے حصون الکتیبہ کے مجموع میں پناہ لی۔ اس میں تین قلعے تھے۔ سب سے بڑا قموس۔ پھر وطیح اور سلالم تھا۔ جب ان کا محاصرہ ہوا تو یہ قلعے مالکوں نے لڑنے والوں کی جان بخشی اور ان کے بچوں کی آزادی کی شرائط پر خود رسول اللہﷺ کے سپرد کردیئے۔ (عون المعبود۔ باب ما جاء فی حکم ارض خیبر بحوالہ زرقانی) ان کے بعد فدک والوں نے اپنے علاقے حوالے کیے۔ (فتح الباري، کتاب فرض الخمس، باب فرض الخمس) رسول اللہ ﷺ لئے یہی علاقے مخصوص تھے۔ کیونکہ یہی بغیر لڑے آپ کی تحویل میں آئے تھے۔ ان کو مضافات وملحقات کہا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بشیر بن یسار ؓ کہتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے خیبر اپنے نبی اکرم ﷺ کو بطور غنیمت عطا فرمایا تو آپ نے اس کے (۳۶ چھتیس) حصے کئے اور ہر حصے میں سو حصے رکھے، تو اس کے نصف حصے اپنی ضرورتوں و کاموں کے لیے رکھا اور اسی میں سے وطیحہ وکتیبہ۱؎ اور ان سے متعلق جائیداد بھی ہے اور دوسرے نصف حصے کو جس میں شق و نطاۃ۲؎ ہیں اور ان سے متعلق جائیداد بھی شامل تھی، الگ کر کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ ان دونوں گاؤں کے متعلقات میں تھا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ دونوں گاؤں کے نام ہیں۔ ۲؎: یہ بھی دو گاؤں کے نام ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Bashir bin Yasar said “When Allaah bestowed Khaibar on His Prophet (ﷺ) as fai’ (spoils), he divided it into thirty six lots. Each lot comprised one hundred portions. He separated its half for his emergent needs and whatever befalls him. Al Watih and Al Kutaibah and Al Salalim and whatever acquired with them. He separated the other half and he divided Al Shaqq and Nata’ and whatever acquired with them. The portion of the Apostle of Allaah(ﷺ) lay in the property acquired with them.