باب: ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ مستحاضہ ان ایام میں (موقع بموقع) غسل کرتی رہے
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Those Who Said: She Should Perform Ghusl Between The Days (Of Her Menses))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
303.
محمد بن عثمان نے قاسم بن محمد سے مستحاضہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑے رہے، پھر (ان کے ختم ہونے پر) غسل کرے اور نماز پڑھنا شروع کر دے اور پھر ان دنوں کے درمیان (موقع بموقع) غسل کرتی رہے۔
تشریح:
یہ حکم شرعی نہیں بلکہ معمول کا غسل ہے جو انسان حسب خواہش یا حسب ضرورت نظافت اور پاکیزگی کے لیے کرتا رہتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح) . إسناده: حدثنا القعنبي: نا عبد العزيز- يعني: ابن محمد- عن محمد بن عثمان. قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير محمد بن عثمان- وهو ابن عبد الرحمن بن سعيد بن يربوع الخزومي-، وهو ثقة بلا خلاف.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
محمد بن عثمان نے قاسم بن محمد سے مستحاضہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑے رہے، پھر (ان کے ختم ہونے پر) غسل کرے اور نماز پڑھنا شروع کر دے اور پھر ان دنوں کے درمیان (موقع بموقع) غسل کرتی رہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حکم شرعی نہیں بلکہ معمول کا غسل ہے جو انسان حسب خواہش یا حسب ضرورت نظافت اور پاکیزگی کے لیے کرتا رہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن عثمان سے روایت ہے کہ انہوں نے قاسم بن محمد سے مستحاضہ کے بارے میں پوچھا تو قاسم بن محمد نے کہا: وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی، پھر غسل کرے گی اور نماز پڑھے گی، پھر باقی ایام میں غسل کرتی رہے گی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Muhammad b. 'Uthman asked al-Qasim b. Muhammad about the woman who has a prolonged flow of blood. He replied: She should abandon prayer during her menstrual period, then wash and pray; then she should wash during her menstrual period.