باب: ان لوگوں کی دلیل جو (مستحاضہ کوعلاوہ خون کے) کسی حدث کے لاحق ہونے...
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Those Who Did Not Mention The Wudu' Except If It Was Nullified)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
305.
جناب عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ ام حبیبہ بنت جحش ؓ کو استحاضہ شروع ہو گیا تو نبی کریم ﷺ نے اسے حکم دیا ”اپنے ایام حیض (کے ختم ہونے) کا انتظار کرے۔ پھر غسل کرے اور نماز پڑھنا شروع کر دے۔ اگر (خون کے علاوہ) کوئی حدث محسوس کرے تو وضو کرے اور نماز پڑھے۔“
تشریح:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ اس لیے راجح بات یہی ہے کہ مستحاضہ ہر نماز کے لیے وضو کرے، چاہے اس کا سابقہ وضو برقرار بھی ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وصححه عبد الحق في أحكامه (522) ) . إسناده: حدثنا زياد بن أيوب: نا هشيم: نا أبو بشر عن عكرمة. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ وقد أعل بالانقطاع، ويأتي الجواب عنه. والحديث أخرجه البيهقي (1/351) من طريق يحيى بن يحيى: أنا هشيم... به؛ إلا أنه قال: توضأت واستثفرت واحتشت وصلت . وأعله بقوله: وهذا منقطع ! وتبعه المنذري والخطابي؛ وزاد: وعكرمة لم يسمع من أم حبيبة بنت جحش ! قال ابن التركماني: وفي تسميته هذا منقطعاً نظر . قلت: ولعل وجهه أن عكرمة- وهو أبو عبد الله المدني البربري؛ مولى ابن عباس- تابعي مات سنة (107) ؛ وهو غير معروف بالتدليس، فروايته محمولة على السماع إلا إذا وجد ما يدل على الانقطاع؛ وليس لدينا شيء من ذلك. وقول الخطابي: إن عكرمة لم يسمع من أم حبيبة ! لا ندري ما مستنده في ذلك؟! ولم يذكره أحد ممن ترجم لأم حبيبة وعكرمة! نعم؛ هناك مجال للشك في سماع عكرمة منها، كما فعل الحافظ في الفتح (1/340) ، وسيأتي نص كلامه في ذلك (رقم 328) . فلو كان صحيحاً ما ذكره الخطابي من نفي السماع؛ لجزم الحافظ بذلك ولم يشك! على أن الشك المذكور خلاف الأصل؛ لما ذكرنا. والله تعالى أعلم. (فائدة) : هذا الحديث كالمخصص أو المقيد لحديث عائشة المشار إليه في الباب قبله: أن المستحاضة تتوضأ لكل صلاة. فإنه- بإطلاقه- يدل على أنها تتوضأ لكل صلاة؛ سواءً رأت الدم أو لم تره! وأما هذا الحديث؛ فإنه يدل على أن فلك إنما يجب إذا رأت الدم. فدل على أن المستحاضة إذا لم تر الدم؛ تصلي بال ضوء الواحد ما شاءت من الصلوات، حتى ينتقض وضوؤها؛ سواءً بخروج الدم أو غيره من النواقض. هذا هو المراد من الحديث، ولا يحتمل غيره من المعنى؛ لا سيما على رواية البيهقي المذكورة عند تخريج الحديث. وقد ذكر صاحب العون وجها ًآخر من المعنى، وهذا- وإن كان قد ذكره احتمالاً، ورجح المعنى الأول-؛ فإن المعنى المشار إليه باطل إذا ما قوبل برواية البيهقي، والله أعلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ ام حبیبہ بنت جحش ؓ کو استحاضہ شروع ہو گیا تو نبی کریم ﷺ نے اسے حکم دیا ”اپنے ایام حیض (کے ختم ہونے) کا انتظار کرے۔ پھر غسل کرے اور نماز پڑھنا شروع کر دے۔ اگر (خون کے علاوہ) کوئی حدث محسوس کرے تو وضو کرے اور نماز پڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ اس لیے راجح بات یہی ہے کہ مستحاضہ ہر نماز کے لیے وضو کرے، چاہے اس کا سابقہ وضو برقرار بھی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عکرمہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش ؓ کو استحاضہ ہو گیا تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے ایام حیض (کے ختم ہونے) کا انتظار کریں پھر غسل کریں اور نماز پڑھیں، پھر اگر اس میں سے کچھ ۱؎ انہیں محسوس ہو تو وضو کر لیں اور نماز پڑھیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس سے مراد حدث ہے نہ کہ مستحاضہ سے خارج ہونے والا خون، اس لئے کہ استحاضہ کے خون سے وضو واجب نہیں ہوتا کیونکہ یہ خون بند ہی نہیں ہوتا ہے برابر جاری رہتا ہے اور اگر اس سے خون مراد لیا جائے تو جملہ شرطیہ کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہ جاتا ہے کیونکہ مستحاضہ تو برابر خون دیکھتی ہے یہ اس سے بند ہی نہیں ہوتا ہے اسی وضاحت سے یہ حدیث باب کے مطابق ہو سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umm Habibah daughter of Jahsh (RA): Ikrimah said: Umm Habibah daughter of Jahsh had a prolonged flow of blood. The Prophet (ﷺ) commanded her to refrain (from prayer) during her menstrual period; then she should wash and pray, if she sees anything (which renders ablution void) she should perform ablution and pray.