Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Intercourse Of A Husband With A Woman In A State Of Istihadah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
310.
جناب عکرمہ، حمنہ بنت حجش ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں استحاضہ آتا تھا اور ان کا شوہر ان سے مباشرت کرتا تھا۔
تشریح:
(1) استحاضہ چونکہ ایک مرض ہے اور یہ عارضہ کسی خاتون کے لے عبادات یا معروف معمولات سے رکاوٹ کا باعث نہیں ہے۔ (2)حدیث 309، 310 ضعیف ہیں۔ تاہم دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ مستحاضہ سے صحبت کرنا جائز ہے، غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی کے نزدیک یہ دونوں روایات صحیح ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن) . إسناده: حدثنا أحمد بن أبي سُريج الرازي: نا عبد الله بن الجَهْمِ: نا عمر بن أبي قيس عن عاصم عن عكرمة. قلت: هذا إسناد حسن، رجاله ثقات، وفي عمرو بن أبي قيس- وهو الرازي-، وشيخه عاصم- وهو ابن أبي النَّجود- كلام لا ينزل حديثهما عن رتبة الحسن. وأحمد بن أبي سريج؛ هو ابن الصَّبَّاح أبو جعفر الرازي المقري، وهو ثقة حافظ من شيوخ البخاري. وقال النووي في المجموع (2/372) : رواه أبو داود وغيره بهذا اللفط بإسناد حسن . والحديث أخرجه البيهقي (1/329) من طريق المؤلف.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عکرمہ، حمنہ بنت حجش ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں استحاضہ آتا تھا اور ان کا شوہر ان سے مباشرت کرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) استحاضہ چونکہ ایک مرض ہے اور یہ عارضہ کسی خاتون کے لے عبادات یا معروف معمولات سے رکاوٹ کا باعث نہیں ہے۔ (2)حدیث 309، 310 ضعیف ہیں۔ تاہم دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ مستحاضہ سے صحبت کرنا جائز ہے، غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی کے نزدیک یہ دونوں روایات صحیح ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حمنہ بنت جحش ؓ کہتی ہیں کہ وہ مستحاضہ ہوتی تھیں اور ان کے شوہر ان سے جماع کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Ikrimah (RA) reported Hamnah daughter of Jahsh as saying that her husband would have intercourse with her during the period she had a flow of blood.