Abu-Daud:
Funerals (Kitab Al-Jana'iz)
(Chapter: How The Deceased Is To Be Washed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3142.
سیدہ ام عطیہ ؓبیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ آپ ﷺ کی صاحبزادی کی وفات ہو گئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے تین یا پانچ بار غسل دو یا اس سے بھی زیادہ اگر ضرورت محسوس کرو، ایسے پانی کے ساتھ جس میں بیری کے پتے ملے ہوں، اور آخری بار میں کچھ کافور بھی ملا لینا، اور جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دینا۔“ چنانچہ جب ہم فارغ ہو گئے تو آپ ﷺ کو خبر دی تو آپ ﷺ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا: ”اسے اس کے جسم کے ساتھ لپیٹ دو۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں امام مالک ؓ سے «حقو» کی بجائے «إزار» کا لفظ مروی ہے۔ (اور معنی ایک ہی ہے یعنی تہبند) اور مسدد نے «دخل علينا» کے الفاظ بیان نہیں کیے۔
تشریح:
1۔ میت کو کم از کم تین بار غسل دینا مستحب ہے۔ اوراگر ضرورت ہو تو پانچ بنار یا س سے بھی زیادہ دیا جا سکتا ہے۔ 2۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ابال لئے جایئں تو بہتر ہے۔ اور ایسے ہی آخری بار میں کچھ کافور ملالینا بھی مستحب ہے۔ 3۔ کسی مسلمان کے مستعمل کپڑے کو بطور کفن استعمال کرنا جائز ہے۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی چادر بالخصوص متبر ک تھی۔ تاہم اس نیت سے کسی اور کا کپڑا استعمال نہ کیا جائے۔
انسانی زندگی کی ابتدا اور انتہا دونوں ہی دور رس اثرات کی حامل ہیں ‘جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو خاندان بھر میں خوشی و مسرت کا عجیب سماں پیدا ہو جاتا ہے ۔ ہر طرف مبارکباد اور خوشیوں کا بتادلہ ہوتا ہے ‘پھر وقت مقررہ پر اس کے رخصت ہوتے کا وقت آتا ہے تو ہر طرف غم کی فضا پھیل جاتی ہے اس نازک وقت میں اکثر و بیشتر لوگ کم علمی ‘جہالت اور شرکیہ معاشرتی فضا کی وجہ سے الیسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں ‘یہ سلسلہ ہائے بدعات و شرک موت کے بعد بھی طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے اور شکم پر ور جہلاء کی خوب چاندی رہتی ہے ۔
انسان جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تو لواحقین بے بسی کی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں ‘حتی المقدار دوا دارو کرنے کے باوجود مریض لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتا جاتا ہے تیمار داری کرنے والے دبے لفظوں میں مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں ‘لواحقین ہر حکیم ‘ ڈاکٹر حتی کہ شرکیہ دم جھاڑ اور مزاروں سے خاک شفا تک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شائد ہمارا مریض بچ جائے مگر جو وقت مقرر ہو چکا ‘ وہ آکے رہتا ہے (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ)(اعراف:34) ’’ اور ہر گروہ کی ایک میعاد مقرر ہے سو جس وقت ان کی میعاد ِمعین آ جائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آ گے بڑھ سکیں گے۔‘‘
٭تیمار داری کی فضیلت: اسلام نے انسانوں کو باہمی محبت و مودت اور ہمدردی کا درس دیا ہے ‘ اس لیے جب کو ئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرنا مسلمان پر واجب ہے تیمار داری کرنے والا جہاں اپنے بھائی سے محبت اور الفت کا اظہار کرتا ہے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے وہاں اپنے رب سے اجر عظیم کا حقدار بھی بنتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جب کوئی مسلمان شا م کے وقت کسی بھائی کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے بھی اس کے ساتھ نکلتے ہیں جو اس کے لیے صبح تک بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور جو کوئی صبح کے وقت عیادت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں جو اس کے لیے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجنائز‘حدیث:3098‘3099)
٭جنازہ میں شرکت کی فضیلت: مسلمان فوت ہوئے تو اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔ اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مقبول اور اعلیٰ اجر و ثواب کا حامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف موحد مسلمانوں کی التجا و دعا کو قبول کرتے ہوئے رب العالمین فوت ہوتے والے کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ اسی طرح یہ عمل طرفین کے لیے باعث رحمت بن جاتا ہے ۔ارشاد نبوی ہے:( «مَنْ شَهِدَ الجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ»، قِيلَ: وَمَا القِيرَاطَانِ؟ قَالَ: «مِثْلُ الجَبَلَيْنِ العَظِيمَيْنِ»)(صحيح البخارى ~الجنائز~باب من انتظر حتى يدفن~حديث:1325)’’ جو شخص جنازے میں شامل ہوا نماز پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص میت کو دفن کرنے تک موجود رہتا ہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ۔‘‘صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے حکم رسول! قیراطان کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’دوقیراط کا ثواب دد عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔‘‘
٭میت کو نفع دینے والے چند امور: ہمارے معاشرے میں ایصال ثواب کے متعدد طریقے رائج ہیں جو اکثر و بیشتر شکم پروو‘ نیم خواندہ مذہبی رہنماؤں کی ایجاد ہیں ‘ طریقوں پر عمل کرنا بجائےثواب کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا قوی سبب ہے ۔ سنت رسول ﷺ میں ایصال ثواب کے لیے درج امو ر بیان ہوئے ہیں(" إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ")(صحيح مسلم ~ الوصية~ باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعدوفاته~حديث:1631)مرنے کے بعد انسان کے اعمال (کے ثواب کا سلسلہ) منقطع و جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے صدقۂ جاریہ ‘لوگوں کو فائدہ دینے والا علم اور نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔‘‘
٭چند ایسے امور جو شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہیں:
٭مرنے والے کے سرہانے قرآن مجید‘ ادعیہ کا مجموعہ‘ یادیگر اور اد و وظائف رکھنا۔
٭چار پائی کے گرد ذکر و اذکار یا نعت خوانی کرنا۔
٭جنازے پر پھول ڈالنا‘مزین چادر ڈالنا یا قرآنی آیات والی چادر ڈالنا۔
٭جنازے لے جاتے ہوئے کلمہ شہادت وغیرہ کا ورد کرنا ، کرانا۔
٭میت کو بلا وجہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا۔
٭قبر کو مزین بنانا اور آرائشی پتھروں سے آراستہ کرنا، یا قبر پر قرآنی آیات ،کلمہ یانام وغیرہ لکھنا۔
٭تدفین کے بعد قبرپر اذان دینا یا سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا۔
٭سوموار‘جمعرات یا دس محرم کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا۔
٭قبروں پر نعت خوانی اور قوالی کرنا یا چراغ وغیرہ جلانا۔
٭ایصال ثواب کے لیے تیجہ‘ساتواں دسواں یا چالیسواں کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا۔
٭دوسرے یا تیسرے دن کل کروانا۔
٭اجرتی قاریوں سے قرآن خوانی کروانا اور سالانہ ختم دلوانا۔
سیدہ ام عطیہ ؓبیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ آپ ﷺ کی صاحبزادی کی وفات ہو گئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے تین یا پانچ بار غسل دو یا اس سے بھی زیادہ اگر ضرورت محسوس کرو، ایسے پانی کے ساتھ جس میں بیری کے پتے ملے ہوں، اور آخری بار میں کچھ کافور بھی ملا لینا، اور جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دینا۔“ چنانچہ جب ہم فارغ ہو گئے تو آپ ﷺ کو خبر دی تو آپ ﷺ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا: ”اسے اس کے جسم کے ساتھ لپیٹ دو۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں امام مالک ؓ سے «حقو» کی بجائے «إزار» کا لفظ مروی ہے۔ (اور معنی ایک ہی ہے یعنی تہبند) اور مسدد نے «دخل علينا» کے الفاظ بیان نہیں کیے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ میت کو کم از کم تین بار غسل دینا مستحب ہے۔ اوراگر ضرورت ہو تو پانچ بنار یا س سے بھی زیادہ دیا جا سکتا ہے۔ 2۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ابال لئے جایئں تو بہتر ہے۔ اور ایسے ہی آخری بار میں کچھ کافور ملالینا بھی مستحب ہے۔ 3۔ کسی مسلمان کے مستعمل کپڑے کو بطور کفن استعمال کرنا جائز ہے۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی چادر بالخصوص متبر ک تھی۔ تاہم اس نیت سے کسی اور کا کپڑا استعمال نہ کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام عطیہ ؓ کہتی ہیں جس وقت رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی (زینب ؓ) کا انتقال ہوا آپ ہمارے پاس آئے اور فرمایا: ”تم انہیں تین بار، یا پانچ بار پانی اور بیر کی پتی سے غسل دینا، یا اس سے زیادہ بار اگر ضرورت سمجھنا اور آخری بار کافور ملا لینا، اور جب غسل دے کر فارغ ہونا، مجھے اطلاع دینا، تو جب ہم غسل دے کر فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر دی، آپ نے ہمیں اپنا تہہ بند دیا اور فرمایا : ” اسے ان کے بدن پر لپیٹ دو۔“ قعنبی کی روایت میں مالک سے مروی ہے یعنی آپ ﷺ کے ازار کو۔ مسدد کی روایت میں”رسول اللہ ﷺ کے ہمارے پاس آنے کا“ ذکر نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umm 'Atiyyah (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) came in when his daughter died, and he said: Wash her with water and lotus leaves three or five times or more than that if you think fit, and put camphor, or some camphor in the last washing, then inform me when you finish. When we had finished we informed him, and he threw us his lower garment saying: Put it next to her body. Malik's version has: that is, his lower garment (izar); and Musaddad did not say: He entered in.