Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Tayammum)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
319.
سلیمان بن داود مہری اور عبدالملک بن شعیب نے ابن وہب کے واسطہ سے مذکورہ حدیث کے مثل بیان کیا، کہا کہ مسلمان اٹھے اور اپنے ہاتھ مٹی پر مارے لیکن مٹی سے کچھ نہ پکڑا۔ مذکورہ حدیث کے قریب قریب ذکر کیا اور اس میں کندھوں اور بغلوں کا ذکر نہیں کیا۔ ابن لیث نے کہا: کہنیوں سے اوپر تک (مسح کیا)۔
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سلیمان بن داود مہری اور عبدالملک بن شعیب نے ابن وہب کے واسطہ سے مذکورہ حدیث کے مثل بیان کیا، کہا کہ مسلمان اٹھے اور اپنے ہاتھ مٹی پر مارے لیکن مٹی سے کچھ نہ پکڑا۔ مذکورہ حدیث کے قریب قریب ذکر کیا اور اس میں کندھوں اور بغلوں کا ذکر نہیں کیا۔ ابن لیث نے کہا: کہنیوں سے اوپر تک (مسح کیا)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے ابن وہب سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ ”مسلمان کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی ہتھیلیوں کو مٹی پر مارا اور مٹی بالکل نہیں لی۔“ پھر راوی نے اسی جیسی حدیث ذکر کی، اس میں انہوں نے «المناكب والآباط» (کندھوں اور بغلوں) کا ذکر نہیں کیا۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The tradition has also been reported through a different chain of narrators. This version has: The Muslims stood up and struck the earth with their palms, but did not get any earth (in their hands). He (Ibn Wahb) then narrated the rest of the tradition in like manner, but he did not mention the words "shoulders" and "armpits". Ibn al-Laith said: (They) wiped above the elbows.