٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
جناب ( سیلمان ابن بریدہ ) ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے امانت کی قسم کھائی ‘ وہ ہم میں سے نہیں ۔ “
حدیث حاشیہ:
ایمان یا امانت اللہ کی طرف سے فرض کردہ امور ہیں۔ان کی قسم کھانے کے کوئی معنی نہیں لہذا ناجائز ہے۔تاہم بقول امام شافعیؒ اس میں کوئی کفارہ نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو امانت کی قسم کھائے وہ ہم میں سے نہیں ۱؎ “ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ قسم اللہ کے اسماء و صفات کی کھانی چاہئے، اور امانت اس کے اسماء و صفات میں سے نہیں ہے بلکہ اس کے اوامر میں سے ایک امر ہے، اس لیے امانت کی قسم کھانا جائز کام ہو گا، اور اس میں کفارہ نہ ہوگا، امام ابوحنیفہ کے نزدیک امانت کی قسم صحیح ہے ، اور اس میں کفارہ واجب ہو گا، کیونکہ امین اللہ کا نام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Buraydah ibn al-Hasib:
The Prophet (ﷺ) said: He who swears by Amanah (faithfulness) is not one of our number.