باب: قسم کھانے میں مخفی طور پر اشارتاً کوئی اور مفہوم مراد لے لینا
)
Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Ambiguity In Oaths)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3256.
سیدنا سوید بن حنظلہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی نیت سے روانہ ہوئے اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر ؓ بھی تھے ۔ ان کے ایک دشمن نے ان کو پکڑ لیا ‘ تو قوم کے لوگ قسم کھانے سے ہچکچاتے رہے ‘ مگر میں نے قسم کھا لی کہ ” یہ میرا بھائی ہے ۔ “ تو اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میں نے آپ ﷺ کو بتایا کہ قوم کے لوگوں نے قسم کھانے میں حرج سمجھا تھا ‘ مگر میں نے قسم کھائی کہ ” یہ میرا بھائی ہے “ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” تو نے سچ کہا ‘ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ۔ “
تشریح:
دشمن کے مقابلے میں اشارے اور توریے سے قسم کھاناجائز ہے۔اور (ان في المعاربض لمندوحة عن الكذب (السنن الكبري للبهقي 199/10) اشارے میں جھوٹ سے بچائو ممکن ہوتا ہے۔ کا یہی مفہوم ہے۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
سیدنا سوید بن حنظلہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی نیت سے روانہ ہوئے اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر ؓ بھی تھے ۔ ان کے ایک دشمن نے ان کو پکڑ لیا ‘ تو قوم کے لوگ قسم کھانے سے ہچکچاتے رہے ‘ مگر میں نے قسم کھا لی کہ ” یہ میرا بھائی ہے ۔ “ تو اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میں نے آپ ﷺ کو بتایا کہ قوم کے لوگوں نے قسم کھانے میں حرج سمجھا تھا ‘ مگر میں نے قسم کھائی کہ ” یہ میرا بھائی ہے “ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” تو نے سچ کہا ‘ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ۔ “
حدیث حاشیہ:
دشمن کے مقابلے میں اشارے اور توریے سے قسم کھاناجائز ہے۔اور (ان في المعاربض لمندوحة عن الكذب (السنن الكبري للبهقي 199/10) اشارے میں جھوٹ سے بچائو ممکن ہوتا ہے۔ کا یہی مفہوم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سوید بن حنظلہ ؓ کہتے ہیں ہم نکلے ، رسول اللہ ﷺ کے پاس جانے کا ارادہ کر رہے تھے ، اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر ؓ بھی تھے ، انہیں ان کے ایک دشمن نے پکڑ لیا تو اور ساتھیوں نے انہیں جھوٹی قسم کھا کر چھڑا لینے کو برا سمجھا ( لیکن ) میں نے قسم کھا لی کہ وہ میرا بھائی ہے تو اس نے انہیں آنے دیا ، پھر جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو میں نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اور لوگوں نے تو قسم کھانے میں حرج و قباحت سمجھی ، اور میں نے قسم کھا لی کہ یہ میرے بھائی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم نے سچ کہا ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے “ ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Suwayd ibn Hanzalah (RA):
We went out intending (to visit) the Apostle of Allah (ﷺ) and Wa'il ibn Hujr was with us. His enemy caught him. The people desisted from swearing an oath, but I took an oath that he was my brother. So he left him. We then came to the Apostle of Allah (ﷺ), and I informed him that the people desisted from taking the oath, but I swore that he was my brother. He said: You spoke the truth: A Muslim is a brother of a Muslim.