Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Is Al-Qasam An Oath ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3268.
جناب ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا : بیشک میں نے آج رات خواب دیکھا ہے اور پھر اس نے اپنا خواب بیان کیا ۔ اور پھر سیدنا ابوبکر ؓ نے اس کی تعبیر کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” تم نے کچھ میں درست کہا ہے اور کچھ میں خطا کی ہے ۔ “ تو انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں آپ کو قسم دیتا ہوں ‘ میرا باپ آپ پر فدا ہو ! آپ مجھے ضرور بتائیے کہ میں نے کیا غلطی کی ہے ‘ تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا ” قسم مت دو ۔ “
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
جناب ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا : بیشک میں نے آج رات خواب دیکھا ہے اور پھر اس نے اپنا خواب بیان کیا ۔ اور پھر سیدنا ابوبکر ؓ نے اس کی تعبیر کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” تم نے کچھ میں درست کہا ہے اور کچھ میں خطا کی ہے ۔ “ تو انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں آپ کو قسم دیتا ہوں ‘ میرا باپ آپ پر فدا ہو ! آپ مجھے ضرور بتائیے کہ میں نے کیا غلطی کی ہے ‘ تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا ” قسم مت دو ۔ “
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ ؓ بیان کر رہے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ، اور اس نے عرض کیا کہ میں نے رات خواب دیکھا ہے ، پھر اس نے اپنا خواب بیان کیا ، ابوبکر ؓ نے اس کی تعبیر بتائی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم نے کچھ تعبیر درست بیان کی ہے اور کچھ میں تم غلطی کر گئے ہو “ ابوبکر ؓ نے کہا : قسم ہے آپ پر اے اللہ کے رسول ! میرے باپ آپ پر قربان ہوں آپ ہمیں ضرور بتائیں میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : ” قسم مت دلاؤ “ ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA):
Abu Hurairah (RA) narrated that a man came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: I had a dream last night, and he then mentioned it. So Abu Bakr interpreted it. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: You are partly right and partly wrong. He then said: I adjure you, Messenger of Allah, may my father be sacrificed on you, do tell me the mistake I have committed. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Do not adjure.