Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: How Much Is The Sa' For Expiation ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3280.
محمد بن محمد بن خلاد ابوعمر کا بیان ہے کہ ہمارے پاس ایک مد تھا جو خالد ( قسری ) کی طرف منسوب تھا جو ہارون کے کیلجہ ( ایک پیمانہ ) سے دوگنا تھا ۔ محمد بن محمد نے کہا : خالد کے صاع ( مد ) سے ہشام بن عبدالملک کا صاع مراد ہے ۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
تمہید باب
پختہ قسم (یمین معقدہ) توڑنے میں کفارہ لازم آتا ہے۔جس کا بیان سورہ مائدہ کی آیت 89 میں آیا ہے۔
''قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کوکھاناکھلانا ہے۔ اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کوکھلاتے ہو۔یا ان کو کپڑا دینا ہے۔یا ایک غلام یا لونڈی آذادکرنا ہے۔اور جو نہ پائے تو تین روزے رکھے۔یہ تمہاری قسموں کا کفار ہ ہے۔جب تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کیاکرو۔'' کفارہ رمضان وغیرہ کی احادیث کی روشنی میں ایک مسکین کے لئے طعام کی مقدار تقریبا ً ایک مدہے۔توچاہیے کہ وہ مد مدنی اور حجازی ہو۔جوہمارے موجودہ پیمانے کے حساب سےگندم اور چاول میںتقریبا 625گرام بنتاہے۔
محمد بن محمد بن خلاد ابوعمر کا بیان ہے کہ ہمارے پاس ایک مد تھا جو خالد ( قسری ) کی طرف منسوب تھا جو ہارون کے کیلجہ ( ایک پیمانہ ) سے دوگنا تھا ۔ محمد بن محمد نے کہا : خالد کے صاع ( مد ) سے ہشام بن عبدالملک کا صاع مراد ہے ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن محمد بن خلاد ابوعمر کا بیان ہے کہ میرے پاس ایک مکوک ۱؎ تھا اسے مکوک خالد کہا جاتا تھا ، وہ ہارون کے کیلجہ ( ایک پیمانہ ہے ) سے دو کیلجہ کے برابر تھا ۔ محمد کہتے ہیں : خالد کا صاع ہشام یعنی ابن عبدالملک کا صاع ہے ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ایک پیمانہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad b. Muhmmad b. Khattab Abu 'Umar (RA):
We had a makkuk which was called Makkuk Khalid. Its capacity was two measurements according to the measurements of Harun. The narrator said: The sa' of Khalid was the sa' of Hisham b. 'Abd al-Malik.