Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: How Much Is The Sa' For Expiation ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3281.
محمد بن محمد بن خلاد ابوعمر نے کہا : ہمیں مسدد نے امیہ بن خالد سے بیان کیا کہ جب خالد القسری گورنر بنا تو اس نے صاع کو دوگنا کر دیا اور پھر ایک صاع سولہ رطل کا ہو گیا ۔ امام ابوداؤد ؓ بیان فرماتے ہیں کہ محمد بن محمد بن خلاد کو زنگی ( سیاہ فام ) لوگوں نے باندھا کر قتل کیا تھا اور اپنے ہاتھوں سے یوں اشارہ کیا ‘ ابوداؤد ؓ نے اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور اپنی ہتھیلیوں کو زمین کی طرف کیا ۔ کہا کہ میں نے اسے خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ اﷲ نے تم سے کیا معاملہ کیا ؟ تو انہوں نے کہا : مجھے جنت میں داخل کر دیا ہے ۔ میں نے کہا : تو تمہیں وقف نے کوئی ضرر نہیں دیا ! ( زنگیوں کے سامنے بے دست و پا ہو جانے سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ اﷲ کے ہاں تمہارا معاملہ صاف ہی رہا ۔ )
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
تمہید باب
پختہ قسم (یمین معقدہ) توڑنے میں کفارہ لازم آتا ہے۔جس کا بیان سورہ مائدہ کی آیت 89 میں آیا ہے۔
''قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کوکھاناکھلانا ہے۔ اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کوکھلاتے ہو۔یا ان کو کپڑا دینا ہے۔یا ایک غلام یا لونڈی آذادکرنا ہے۔اور جو نہ پائے تو تین روزے رکھے۔یہ تمہاری قسموں کا کفار ہ ہے۔جب تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کیاکرو۔'' کفارہ رمضان وغیرہ کی احادیث کی روشنی میں ایک مسکین کے لئے طعام کی مقدار تقریبا ً ایک مدہے۔توچاہیے کہ وہ مد مدنی اور حجازی ہو۔جوہمارے موجودہ پیمانے کے حساب سےگندم اور چاول میںتقریبا 625گرام بنتاہے۔
محمد بن محمد بن خلاد ابوعمر نے کہا : ہمیں مسدد نے امیہ بن خالد سے بیان کیا کہ جب خالد القسری گورنر بنا تو اس نے صاع کو دوگنا کر دیا اور پھر ایک صاع سولہ رطل کا ہو گیا ۔ امام ابوداؤد ؓ بیان فرماتے ہیں کہ محمد بن محمد بن خلاد کو زنگی ( سیاہ فام ) لوگوں نے باندھا کر قتل کیا تھا اور اپنے ہاتھوں سے یوں اشارہ کیا ‘ ابوداؤد ؓ نے اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور اپنی ہتھیلیوں کو زمین کی طرف کیا ۔ کہا کہ میں نے اسے خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ اﷲ نے تم سے کیا معاملہ کیا ؟ تو انہوں نے کہا : مجھے جنت میں داخل کر دیا ہے ۔ میں نے کہا : تو تمہیں وقف نے کوئی ضرر نہیں دیا ! ( زنگیوں کے سامنے بے دست و پا ہو جانے سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ اﷲ کے ہاں تمہارا معاملہ صاف ہی رہا ۔ )
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امیہ بن خالد کہتے ہیں جب خالد قسری گورنر مقرر ہوئے تو انہوں نے صاع کو دو چند کر دیا تو ایک صاع ( ۱۶ ) رطل کا ہو گیا ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : محمد بن محمد بن خلاد کو حبشیوں نے سامنے کھڑا کر کے قتل کر دیا تھا انہوں نے ہاتھ سے بتایا کہ اس طرح ( یہ کہہ کر ) ابوداؤد نے اپنا ہاتھ پھیلایا ، اور اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے باطن کو زمین کی طرف کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے ان کو خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا : اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟ انہوں نے کہا : اللہ نے مجھے جنت میں داخل فر دیا ، تو میں نے کہا : پھر تو آپ کو حبشیوں کے سامنے کھڑا کر کے قتل کئے جانے سے کچھ نقصان نہ پہنچا ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : خالد قسری کا یہ عمل دلیل نہیں ہے، عراقی صاع (۸) رطل کا ہوتا ہے، حجازی نبوی صاع (۵) رطل کا ہوتا ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umayyah b. Khalid:
When Khalid al-Qasri was made ruler (of Hijaz and Kufah), he doubled the measure of sa'. The sa' then measured sixteen rotls.
Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Muhammad b. Muhammad b. Khattab was slain by Negroes in confinement. He said while signing with his hand: "in this way". Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ extended his hand and turned his palms towards earth and said: I saw him in the dream and asked him: How did Allah deal with you? He replied: He admitted to Paradise. I said: Your detention did not harm you.