Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Is It Disliked To Make Vows)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3287.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ (ایک موقع پر) رسول اللہ ﷺ نذر ماننے سے منع فرمانے لگے، آپ ﷺ فرماتے تھے: ”نذر کسی چیز کو رد نہیں کرتی بلکہ اس کے ذریعے سے بخیل آدمی سے مال نکالا جاتا ہے۔“ مسدد نے یوں بیان کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”بیشک نذر کسی چیز کو رد نہیں کرتی۔“
تشریح:
یہ ممانعت اور ناپسندیدگی اس قسم کی نذر سے ہے۔ کہ آدمی یہ کہے اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو اتنا مال صدقہ کروں گا۔ کیونکہ ہوتا تو وہی ہے جو مقدر ہے، مگر اس سے یہ ہوتا ہے کہ جو آدمی عام حالات میں اللہ کی رضا کےلئے خرچ نہیں کرتا وہ کسی مشکل میں پڑ کرخرچ کردیتا ہے۔ الغرض اللہ کی راہ میں مال خر چ کرنے کو اپنی مطلب بر آری کے ساتھ مشروط ٹھرانا پسند نہیں کیا گیا۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
تمہید باب
انسان کا کسی مشروع عبادت (نماز ۔روزہ۔حج ۔عمرہ یا صدقہ وغیرہ)کو اپنے اوپر از خود لازم کرلینا۔جو اس پرلازم نہ ہو نذر کہلاتا ہے۔ایک باعمل انسان کو اولاً تو ا س کی ضرورتنہیں ہوتی۔لیکن اگر کوئی شخص مان لے تو اس کا پوراکرنا لازم ہوتاہے۔جسے مومنین کی عمدہ صفات میں شمار کیا گیا ہے۔اوراللہ تعالیٰ نےفرمایا۔(يُوفُونَ بِالنَّذْرِ)(الدھر۔7۔)''مومن اپنی نذریں پوری کرتے ہیں''اور حجاج کے متعلق فرمایا (وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ)(الحج۔29)''ااور چاہیے کہ وہ اپنی نذریں پوری کریں۔''
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ (ایک موقع پر) رسول اللہ ﷺ نذر ماننے سے منع فرمانے لگے، آپ ﷺ فرماتے تھے: ”نذر کسی چیز کو رد نہیں کرتی بلکہ اس کے ذریعے سے بخیل آدمی سے مال نکالا جاتا ہے۔“ مسدد نے یوں بیان کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”بیشک نذر کسی چیز کو رد نہیں کرتی۔“
حدیث حاشیہ:
یہ ممانعت اور ناپسندیدگی اس قسم کی نذر سے ہے۔ کہ آدمی یہ کہے اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو اتنا مال صدقہ کروں گا۔ کیونکہ ہوتا تو وہی ہے جو مقدر ہے، مگر اس سے یہ ہوتا ہے کہ جو آدمی عام حالات میں اللہ کی رضا کےلئے خرچ نہیں کرتا وہ کسی مشکل میں پڑ کرخرچ کردیتا ہے۔ الغرض اللہ کی راہ میں مال خر چ کرنے کو اپنی مطلب بر آری کے ساتھ مشروط ٹھرانا پسند نہیں کیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نذر سے منع فرماتے تھے، اور فرماتے تھے کہ نذر تقدیر کے فیصلے کو کچھ بھی نہیں ٹالتی سوائے اس کے کہ اس سے بخیل (کی جیب) سے کچھ نکال لیا جاتا ہے۔ مسدد کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نذر کسی چیز کو ٹالتی نہیں۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نذر ماننے والے کو اس کی نذر سے کچھ بھی نفع یا نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ نذر ماننے والے کے حق میں منجانب اللہ جو فیصلہ ہو چکا ہے، اس میں اس کی نذر سے ذرہ برابر تبدیلی نہیں آ سکتی، اس لئے یہ سوچ کر نذر نہ مانی جائے کہ اس سے مقدر شدہ امر میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abd Allah b. 'Umar (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) forbade to make a vow. He said: It has not effect against fate, it is only from the miserly that it is means by which something is extracted. Musaddad said: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: A vow does not avert anything (i.e. has no effect against fate).