Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Is It Disliked To Make Vows)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3288.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) نذر ابن آدم کی تقدیر میں، جسے میں نے پہلے سے مقدر نہ کیا ہو، کوئی تبدیلی نہیں لاتی، بلکہ یہ تقدیر ہی میں سے ہوتا ہے کہ انسان نذر مان لیتا ہے جس کے ذریعے سے بخیل سے کچھ نکالا جاتا ہے اور وہ کچھ کروایا جاتا ہے جو وہ اس سے پہلے نہیں کر رہا ہوتا۔“
تشریح:
نذر ماننا اس معنی میں منع ہے۔ جیسے کہ جہلا ء سمجھتے ہیں۔ کہ اس سے فوری طور پرکوئی فائدہ ہوگا۔ یا کسی نقصان سے بچائو ہوجائے گا۔ ورنہ مطلقا ً اللہ کا قرب حاصل کرنےکےلئے کسی عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینا مشروع ہے۔ اور پھر اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ اور اسی کو نذر کہا جاتا ہے۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
تمہید باب
انسان کا کسی مشروع عبادت (نماز ۔روزہ۔حج ۔عمرہ یا صدقہ وغیرہ)کو اپنے اوپر از خود لازم کرلینا۔جو اس پرلازم نہ ہو نذر کہلاتا ہے۔ایک باعمل انسان کو اولاً تو ا س کی ضرورتنہیں ہوتی۔لیکن اگر کوئی شخص مان لے تو اس کا پوراکرنا لازم ہوتاہے۔جسے مومنین کی عمدہ صفات میں شمار کیا گیا ہے۔اوراللہ تعالیٰ نےفرمایا۔(يُوفُونَ بِالنَّذْرِ)(الدھر۔7۔)''مومن اپنی نذریں پوری کرتے ہیں''اور حجاج کے متعلق فرمایا (وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ)(الحج۔29)''ااور چاہیے کہ وہ اپنی نذریں پوری کریں۔''
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) نذر ابن آدم کی تقدیر میں، جسے میں نے پہلے سے مقدر نہ کیا ہو، کوئی تبدیلی نہیں لاتی، بلکہ یہ تقدیر ہی میں سے ہوتا ہے کہ انسان نذر مان لیتا ہے جس کے ذریعے سے بخیل سے کچھ نکالا جاتا ہے اور وہ کچھ کروایا جاتا ہے جو وہ اس سے پہلے نہیں کر رہا ہوتا۔“
حدیث حاشیہ:
نذر ماننا اس معنی میں منع ہے۔ جیسے کہ جہلا ء سمجھتے ہیں۔ کہ اس سے فوری طور پرکوئی فائدہ ہوگا۔ یا کسی نقصان سے بچائو ہوجائے گا۔ ورنہ مطلقا ً اللہ کا قرب حاصل کرنےکےلئے کسی عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینا مشروع ہے۔ اور پھر اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ اور اسی کو نذر کہا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ کہتا ہے:) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو لیکن نذر اسے اس تقدیر سے ملاتی ہے جسے میں نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، یہ بخیل سے وہ چیز نکال لیتی ہے جسے وہ اس نذر سے پہلے نہیں نکالتا ہے (یعنی اپنی بخالت کے سبب صدقہ خیرات نہیں کرتا ہے مگر نذر کی وجہ سے کر ڈالتا ہے)۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ حدیث قدسی ہے اگرچہ نبی اکرم ﷺ نے صراحۃً اسے اللہ کی طرف مرفوع نہیں کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: A vow does not provide for the son of Adam anything which I did not decree for him, but a vow draws it. A Divine decree is one which I have destined, it is extracted from a miser. He is given what he was not given before.