باب: جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا وارث کی طرف سے روزے رکھے
)
Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: If A Person Dies Owing Fasts, His Heir Should Fast On His Behalf)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3310.
سیدنا ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہا: بیشک میری والدہ کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے تو کیا میں اس کی طرف سے قضاء کر سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تیری والدہ پر قرضہ ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اللہ کا قرضہ زیادہ اہم ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔“
تشریح:
مسائل سمجھانے کےلئے مثالوں سے مدد لینے سے بات خوب واضح ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ سادہ ذہن آدمی بھی مقصود سمجھ جاتا ہے۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
سیدنا ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہا: بیشک میری والدہ کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے تو کیا میں اس کی طرف سے قضاء کر سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تیری والدہ پر قرضہ ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اللہ کا قرضہ زیادہ اہم ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔“
حدیث حاشیہ:
مسائل سمجھانے کےلئے مثالوں سے مدد لینے سے بات خوب واضح ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ سادہ ذہن آدمی بھی مقصود سمجھ جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ میری والدہ کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے کیا میں اس کی جانب سے رکھ دوں؟ آپ ﷺ نے پوچھا: ”اگر تمہاری والدہ کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کا قرض تو اور بھی زیادہ ادا کئے جانے کا مستحق ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): A woman came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said (to him) that one month's fast was due from her mother who had died. May I fulfill them on her behalf? He asked: Suppose some debt was due from your mother, would you pay it? She replied: Yes. He said: So the debt due to Allah is the one which most deserves to be paid.