Abu-Daud:
Commercial Transactions (Kitab Al-Buyu)
(Chapter: Regarding Avoiding Things That One Doubts)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3330.
سیدنا نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ یہ حدیث بیان فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور ان (حلال و حرام) کے درمیان کچھ شبہے والی چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، تو جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنی عزت اور اپنے دین کو محفوظ کر لیا اور جو شبہے والی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں داخل ہوا۔“
تشریح:
1۔ جو چیزیں بعض وجوہ سے ناجائز ہوں۔ اور بعض دوسرے وجو ہ سے ان کے حلال ہونے کا بھی امکان ہو اور معاملہ صاف اور واضح نہ ہو۔ تو اس سے بچنا چاہیے کہ کہیں حرام کا ارتکاب نہ ہوجائے۔ 2۔ اگر کوئی شخص مشکوک چیز سے پرہیز نہ کرے تو اس جراءت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ کہ وہ کسی نہ کسی دن صریح حرام میں جاگرتا ہے۔ 3۔ محمد صالح الہاشمی امام ابو دائود سے نقل کرتے ہیں۔ کہ میں طرسوس میں بیس سال مقیم رہا اور مسند لکھی میں نے چار ہزار احادیث لکھیں۔ اور پھر غور کیا تو دیکھا کہ ان کا مدار صرف چاراحادیث پر ہے۔ پہلی ان میں سے یہی حدیث ہے۔ الحلال بين والحرام بين صحیح بخاری الایمان حدیث 52 وصحیح مسلم المساقاۃ حدیث 1599 دوسری: إِنما الأعمالُ بِالنياتِ(صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 1) تیسری (إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يقبل إلاطيبًا)(صحیح مسلم، الذکاة، حدیث: 1015) اور چوتھی یہ ہے۔ (من حسنِ إسلام المرء تركُه مالا يعنِيهِ)(جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2317)
تجارت‘نفع کی امید پر اشیائے ضرورت خریدنے اور جہاں ضرورت ہو وہاں لے جا کر بیچنے کا نام ہے ۔ یہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔علم معیشت کے مطابق تجارت دولت کی گردش اور روزگار کی فراہمی میں اہم ترین کر دار ادا کرتی ہے اسلام نے صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے اونچے درجے کا عمل صالح قرار دیا ہے ۔حرص اور لالچ کے مارے ہوئے لوگوں نے دنیا کے ہر اچھے عمل کی طرح تجارت جیسے مفید علم کو بھی لوٹ مار ‘دوسروں کا حق غضب کرنے ‘ناجائز مفاد حاصل کرنے اور دھوکے سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جدید سوسائٹی نے تو بعض استحصالی طریقوں (مثلاًسود) کو اپنی معیشت کا بنیادی اصول بنا لیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام مخفی استحصالی راستوں کا دروازہ بھی بند کر دیا جو تجارت کو عدل سے ہٹا کر ظلم وعدوان پر استوار کرتے ہیں۔ تاریخ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پہلی اور آخری ہستی ہیں جنہوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح عمل تجارت کو استحصال او رلوٹ مار سے مکمل طور پر پاک صاف کر دیا ۔آپ ﷺ نے انتہائی باریک بینی سے رائج نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی قطعی حدود کا تعین فرما دیا۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے عمل تجارت ہر طرح کے ظلم و جور سے پاک رہتا ہے اور اس کی مغفرت کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے ۔تجارت کے عمل میں خریدار ‘فروخت کرنے والا‘مال تجارت اور معاہدہ ٔ تجارت بنیادی اجزا ہیں۔معاہدہ تجارت کے حوالے سے قرآن مجید نے ’’تراضى‘‘ کو بنیادی اصول قرار دیا ہے ۔ تراضى ‘بیع کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے آزاد فیصلے سے رضا مند ہونے کا نام ہے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تجارت کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
(1) تجارت کی باہمی تراضى (باہمی رضا مندی) ہے ۔ اگر کسی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی۔
(2) معاہدۂ بیع کے دونوں فریق (خریدار ‘فروخت کرنے والا) فیصلے میں آزاد ‘ہر پہلو پر مطلع اور معاہدۂ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوتے چاہییں اگر ایسا نہیں تو تجارت کا عمل درست نہ ہوگا۔
(3) معاہدہ ٔ بیع میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہیں یا کسی فریق کر ناروا پابندیوں میں جکڑتی ہیں یا کسی ایک فریق کے جائز مفادات کی قیمت پر دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ایسی شرائط سے معاہدۂ بیع فاسد ہو جائے گا۔
(4) اگر ایک فریق نے دوسرے کے بے خبر رکھا ‘دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو بیع جائز نہ ہوگی۔
(5) اگر مال تجارت کی مقدار یا اس کی افادیت کے تعین میں شبہ ہو‘اس کی بنیادی صفات کے بارے میں کچھ پہلو مبہم ہوں‘ اس کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ مخدوش ہو یا اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی تو ایسی بیع جائز نہیں ہو گی۔
(6) مال تجارت حلال‘کسی نہ کسی طرح فائدہ اور ہر قسم کے خفیہ عیب سے پاک ہوتا چاہیے اگر سرے سے مال تجارت حرم یا غیر مفید ہو یا اس کے عیب کو چھپایا گیا ہوتو اس کی تجارت رواقرار نہیں دی جائے گی۔
(7) تجارت ایک مثبت عمل ہے اس سے تمام فریقوں کا مفاد محفوظ ہونا چاہیے ‘اگر معاہدۂ بیع محسوس یا غیر محسوس طریق پر کسی ایک فریق کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہو یا ظاہراً با ہمی رضا مندی کے باوجود محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ظلم کا سبب ہو تو بیع درست نہیں ہوگی ۔
(8) اگر خریدو فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہو تو انصاف اور تراضی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔
(9) اگر باہمی خریدوفروخت میں سودی معاملات داخل ہو جائیں تو پھر بھی تجارت جائز نہ ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے بیوع کے حوالے سے جو حدود متعین فرمائی ہیں ان کے ذریعے سے خریدوفروخت کا پورا نظام ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک اور مکمل طور پر انسانی فائدے کا ضامن بن جاتا ہے ان کے نتیجے میں بازار یا منڈی کا ماحول حد درجہ سازگار ہو جاتا ہے اور معیشت میں بے انتہا وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی تجارت کے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بہت مستحکم ہو جاتی ہے۔امام ابوداود نے اپنی سنن میں جو احادیث جمع کی ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے نظام خریدو فروخت کے نمایاں پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔
سیدنا نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ یہ حدیث بیان فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور ان (حلال و حرام) کے درمیان کچھ شبہے والی چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، تو جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنی عزت اور اپنے دین کو محفوظ کر لیا اور جو شبہے والی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں داخل ہوا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ جو چیزیں بعض وجوہ سے ناجائز ہوں۔ اور بعض دوسرے وجو ہ سے ان کے حلال ہونے کا بھی امکان ہو اور معاملہ صاف اور واضح نہ ہو۔ تو اس سے بچنا چاہیے کہ کہیں حرام کا ارتکاب نہ ہوجائے۔ 2۔ اگر کوئی شخص مشکوک چیز سے پرہیز نہ کرے تو اس جراءت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ کہ وہ کسی نہ کسی دن صریح حرام میں جاگرتا ہے۔ 3۔ محمد صالح الہاشمی امام ابو دائود سے نقل کرتے ہیں۔ کہ میں طرسوس میں بیس سال مقیم رہا اور مسند لکھی میں نے چار ہزار احادیث لکھیں۔ اور پھر غور کیا تو دیکھا کہ ان کا مدار صرف چاراحادیث پر ہے۔ پہلی ان میں سے یہی حدیث ہے۔ الحلال بين والحرام بين صحیح بخاری الایمان حدیث 52 وصحیح مسلم المساقاۃ حدیث 1599 دوسری: إِنما الأعمالُ بِالنياتِ(صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 1) تیسری (إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يقبل إلاطيبًا)(صحیح مسلم، الذکاة، حدیث: 1015) اور چوتھی یہ ہے۔ (من حسنِ إسلام المرء تركُه مالا يعنِيهِ)(جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2317)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ یہی حدیث بیان فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”ان دونوں کے درمیان کچھ شبہے کی چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو شبہوں سے بچا وہ اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لے گیا، اور جو شبہوں میں پڑا وہ حرام میں پھنس گیا۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Nu'man b. Bashir: I heard Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: But between them are certain doubtful things which many people do not recognize. He who guards against doubtful things keeps his religion and his honor blameless, but he who falls into doubtful things falls into what is unlawful.