مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3348.
سیدنا عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونے کے بدلے چاندی سود ہے سوائے اس کے کہ ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہو، گندم کے بدلے گندم سود ہے سوائے اس کے کہ ہاتھوں ہاتھ ہو، کھجور کے بدلے کھجور سود ہے سوائے اس کے کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔ جو کے بدلے جو سود ہے سوائے اس کے کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔“
تجارت‘نفع کی امید پر اشیائے ضرورت خریدنے اور جہاں ضرورت ہو وہاں لے جا کر بیچنے کا نام ہے ۔ یہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔علم معیشت کے مطابق تجارت دولت کی گردش اور روزگار کی فراہمی میں اہم ترین کر دار ادا کرتی ہے اسلام نے صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے اونچے درجے کا عمل صالح قرار دیا ہے ۔حرص اور لالچ کے مارے ہوئے لوگوں نے دنیا کے ہر اچھے عمل کی طرح تجارت جیسے مفید علم کو بھی لوٹ مار ‘دوسروں کا حق غضب کرنے ‘ناجائز مفاد حاصل کرنے اور دھوکے سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جدید سوسائٹی نے تو بعض استحصالی طریقوں (مثلاًسود) کو اپنی معیشت کا بنیادی اصول بنا لیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام مخفی استحصالی راستوں کا دروازہ بھی بند کر دیا جو تجارت کو عدل سے ہٹا کر ظلم وعدوان پر استوار کرتے ہیں۔ تاریخ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پہلی اور آخری ہستی ہیں جنہوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح عمل تجارت کو استحصال او رلوٹ مار سے مکمل طور پر پاک صاف کر دیا ۔آپ ﷺ نے انتہائی باریک بینی سے رائج نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی قطعی حدود کا تعین فرما دیا۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے عمل تجارت ہر طرح کے ظلم و جور سے پاک رہتا ہے اور اس کی مغفرت کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے ۔تجارت کے عمل میں خریدار ‘فروخت کرنے والا‘مال تجارت اور معاہدہ ٔ تجارت بنیادی اجزا ہیں۔معاہدہ تجارت کے حوالے سے قرآن مجید نے ’’تراضى‘‘ کو بنیادی اصول قرار دیا ہے ۔ تراضى ‘بیع کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے آزاد فیصلے سے رضا مند ہونے کا نام ہے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تجارت کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
(1) تجارت کی باہمی تراضى (باہمی رضا مندی) ہے ۔ اگر کسی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی۔
(2) معاہدۂ بیع کے دونوں فریق (خریدار ‘فروخت کرنے والا) فیصلے میں آزاد ‘ہر پہلو پر مطلع اور معاہدۂ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوتے چاہییں اگر ایسا نہیں تو تجارت کا عمل درست نہ ہوگا۔
(3) معاہدہ ٔ بیع میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہیں یا کسی فریق کر ناروا پابندیوں میں جکڑتی ہیں یا کسی ایک فریق کے جائز مفادات کی قیمت پر دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ایسی شرائط سے معاہدۂ بیع فاسد ہو جائے گا۔
(4) اگر ایک فریق نے دوسرے کے بے خبر رکھا ‘دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو بیع جائز نہ ہوگی۔
(5) اگر مال تجارت کی مقدار یا اس کی افادیت کے تعین میں شبہ ہو‘اس کی بنیادی صفات کے بارے میں کچھ پہلو مبہم ہوں‘ اس کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ مخدوش ہو یا اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی تو ایسی بیع جائز نہیں ہو گی۔
(6) مال تجارت حلال‘کسی نہ کسی طرح فائدہ اور ہر قسم کے خفیہ عیب سے پاک ہوتا چاہیے اگر سرے سے مال تجارت حرم یا غیر مفید ہو یا اس کے عیب کو چھپایا گیا ہوتو اس کی تجارت رواقرار نہیں دی جائے گی۔
(7) تجارت ایک مثبت عمل ہے اس سے تمام فریقوں کا مفاد محفوظ ہونا چاہیے ‘اگر معاہدۂ بیع محسوس یا غیر محسوس طریق پر کسی ایک فریق کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہو یا ظاہراً با ہمی رضا مندی کے باوجود محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ظلم کا سبب ہو تو بیع درست نہیں ہوگی ۔
(8) اگر خریدو فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہو تو انصاف اور تراضی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔
(9) اگر باہمی خریدوفروخت میں سودی معاملات داخل ہو جائیں تو پھر بھی تجارت جائز نہ ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے بیوع کے حوالے سے جو حدود متعین فرمائی ہیں ان کے ذریعے سے خریدوفروخت کا پورا نظام ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک اور مکمل طور پر انسانی فائدے کا ضامن بن جاتا ہے ان کے نتیجے میں بازار یا منڈی کا ماحول حد درجہ سازگار ہو جاتا ہے اور معیشت میں بے انتہا وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی تجارت کے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بہت مستحکم ہو جاتی ہے۔امام ابوداود نے اپنی سنن میں جو احادیث جمع کی ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے نظام خریدو فروخت کے نمایاں پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔
تمہید باب
فائدہ۔عام طور پرخریدوفروخت کرنسی کےزریعے سے ہوتی ہے۔ابتدائی دو ر میں بلکہ بعض دیہات میں آج کل بھی غلہ کپاس وغیرہ دے کرضرورت کی دوسری اشیاء حاصل کی جاتی ہیں۔ اس کو عربی میں مقايضه(Barter) کہاجاتا ہے۔سونے کو سونے چاندی کو چاندی یا ایک کرنسی کواس کرنسی کے بدلے خریدنے بیچنے کوعربی میں ''مراطله''کہاجاتا ہے۔سونے کو چاندی یا ایک کرنسی کو دوسری کے عوض خریدنے بیچنے کو ''صَرفُ''(Exchang) کہا جاتاہے۔تبادلے کے اعتبار سے بیوع کی یہی چار بنیادی صورتیں ہیں۔
مراطله میں شرط یہ ہے کہ تبادلے کی دونوں کی مقدار ایک جتنی ہوا اور سودا نقد ہو۔بنیادی غذائی اجناس کے مقايضهمیں شرط یہ ہے کہ سودا نقد ہو اور ان کے باہمی تبادلے میں کمی بیشی نہ کی جائے۔(اسلام نے ہم جنس اشیاءکےتبادلے میں کمی بیشی یا ادھار دونوں کو ربا قراردیا ہے۔اوراس کو شرعی اصطلاح میں ربا الفضل کہا جاتا ہے۔)بیع صرف یعنی سونے کو چاندی یا ایک کرنسی کو دوسری کرنسی کے عوض بیچنے کی صورت میں مقدار میں کمی بیشی جائز ہے۔ایک سو گرام سونے کے بدلے کئی سو گرام چاندی یا ایک ریال کے بدلے کئی روپے خریدنا بیچنا درست ہے۔مگر ادھار کی اجازت نہیں اگر آپ ریال کے عوض روپے خریدنا چاہتے ہیں۔ تو جس وقت ریال دیں اسی وقت روپے حاصل کرلیں۔ اگر ایک طرف سے بھیتاخیرہوئی تو اسلام کی طرف سے یہ سود ہوگا۔یہ آج کل کا عام مشاہدہ ہے کہ کرنسیوں کی شرح تبادلہ اور سونے چاندی کا ریٹ لمحہ بہ لمحہ بدلتا رہتا ہے۔ فوری تبادلہ نہ ہو اور ایک چیز دے کر اس کے بدلے دوسری چیز حاصل کرنے میں تاخیر ہوگئی۔ تو ریٹ بدل چکا ہوگا۔حدیث میں مذکورہ چار بنیادی غذائی اجناس کے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلے میں بھی یہی حکم ہوگا۔یعنی کمی وبیشی جائز ہوگی ادھار جائز نہ ہوگا۔
کرنسی کے بدلے اشیاء کی نقد خریدوفروخت تو ہروقت بجاطور پر جاری رہتی ہے۔اس میں ادھار بھی جائز ہے۔مثلا آپ قیمت نقد ادا کردیتے ہیں۔اور چیز بعد میں لینا طے کرتے ہیں۔تو اسے بیع سلم کہتے ہیں۔یہ بیع بھی قطعی طور پر جائز ہے۔(ماخوذ ازفتح الباری باب الورق بالذھب نسیۃ )لیکن اگر قیمت اور جنس دونوں ادھار رکھے جائیں تو یہ جائز نہیں نہ اسے بیع سلم ہی کہا جاسکتاہے۔
سیدنا عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونے کے بدلے چاندی سود ہے سوائے اس کے کہ ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہو، گندم کے بدلے گندم سود ہے سوائے اس کے کہ ہاتھوں ہاتھ ہو، کھجور کے بدلے کھجور سود ہے سوائے اس کے کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔ جو کے بدلے جو سود ہے سوائے اس کے کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونا چاندی کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، گیہوں گیہوں کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، اور کھجور کھجور کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، اور جو جو کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو.“ (نقدا نقد ہونے کی صورت میں ان چیزوں میں سود نہیں ہے لیکن شرط یہ بھی ہے کہ برابر بھی ہوں)۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: سونا چاندی کو سونا چاندی کے بدلے میں نقدا بیچنا یہی بیع صرف ہے، اس میں نقدا نقد ہونا ضروری ہے، ادھار درست نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: Gold for gold is interest unless both hand over on the spot ; wheat for wheat is interest unless both hand over on the spot ; dates for dates is interest unless both hand over on the spot ; barley for barley is interest unless both hand over on the spot.