مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3350.
ابواشعث صنعانی نے یہ حدیث بواسطہ سیدنا عبادہ بن صامت ؓ نبی کریم ﷺ سے کسی قدر کمی بیشی سے روایت کی ہے اور اضافہ یہ کیا: ”جب یہ انواع مختلف ہوں تو جیسے چاہو بیچو جبکہ معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔“
تشریح:
1۔ ہم جنس اشیاء کی باہمی خریدوفروخت کے بارے میں اسلام ن جو ضابطہ دیا ہے اس کے حوالے سے آج کل یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔ کہ اگر ایک جنس مثلا کھجور۔ بہتر قسم کی ہو۔ اور دوسری گھٹیا کوالٹی کی ہو تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہوسکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اسلام ہر صورت میں عدل وانصاف کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے ان اشیاء کی خریدوفروخت میں جو انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ عدل پرزور دیا ہے۔ 2۔ ہرنوع کی کھجور یا گندم بنیادی طور پرانسان کی بھوک مٹاتی ہے۔ اگر محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کےلئے تبادلہ مقصود ہے تو بلاشک تبادلہ کرلو بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔ تبادلے میں دونوں کی مقدار برابر رکھو یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ 3۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے۔ کہ غذائی ضرورت پوری کرنے میں ایک نوع دوسری سے بہتر ہے مثلا یہ کہ ایک نوع کی نسبتاً کم مقدار دوسری نوع کی زیادہ مقدار کے برابر بھوک مٹاتی ہے۔ یا ایک کا ذائقہ اتنا بہتر ہے کہ دوسری نوع کی زیادہ مقدار پہلی نوع کے مقابلے میں ہونی چاہیےتو عام آدمی کے پاس ایسا کوئی آلہ کوئی ترازو موجود نہیں جو عدل وانصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کرسکے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہ عطا فرمایا کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض بیچ دواسی طرح اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض خرید لو اس طرح عد ل وانصاف کے تقاضے صحیح معنی میں پورے ہوجایئں گے۔ کوالٹی کا فرق کتنا ہے اس کو وزن یا ماپ کے ذریعے سے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ قیمت کے ذریعے سے متعین کیا جاسکتا ہے۔ کوالٹی کے تعین کےلئے قیمت میں ایک ہی جانبدار او مناسب ترین ذریعہ ہے۔ 4۔ اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ محض وزن میں کمی زیادتی کے ذریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں سے کسی ایک فریق کا حق مارا جائے گا۔ کوالٹی کا فرق متعین کرنے کےلئے وزن کو معیار بنایا جائے۔ تو تراضی یا باہمی رضا مندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے ا سی لئے بیع جائز نہیں ہوسکتی۔ 5۔ اس سلسلے میں ایک اور سوال کافی عرصے سے زیر بحث چلا آرہا ہے کہ برابری دست بدست تبادلے کی شرط محض ان چھ اشیاء کی خریدوفروخت میں ہے۔ یا ان جیسی دوسری اشیاء کی بیع کےلئے بھی ہے۔ ظاہری (وہ لوگ جو قرآن یا حدیث کے ظاہری معنی تک محدودرہتے ہیں۔) حدیث میں مذکور محض ان چھ اشیاء کےلئے اس حکم کو محدود رکھتے ہیں۔ باقی اشیاء میں اگر ہم جنس کا تبادلہ کمی بیشی سے ہویا ادھار تو اسے ربوالفضل قرار نہیں دیتے۔ لیکن باقی تمام مکاتب فکردوسری اشیاء کو بھی ان پر قیاس کرتے ہیں۔ اور یہی درست نقطہ نظرہے۔ 6۔ پاکستان اور ارد گرد کے ملکوں میں جس طرح گندم بنیادی غذائی جنس ہے۔ اس طرح مشرق بعید (ملائشیا۔ انڈونیشیا۔ جاپان کوریا وغیرہ) میں چاول خورا ک کا بنیادی حصہ (سٹیپل فوڈ) ہے عرب اور ارد گرد کے ممالک میں جو حیثیت کھجور کی ہے۔ پاکستان کے شمالی حصوں بلتستان وغیر ہ میں وہی حیثیت خوبانی کی او بحیرہ روم کے علاقوں میں کشمش کی ہے۔ اس لئے ان اشیاء کو گندم جو اور کھجور پر قیاس کرنا چاہیے۔ 7۔ قیاس کی بنیادی وجہ (علت قیاس) کے بارے میں البتہ مختلف مکاتب فکر میں اختلاف ہے، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک سوناچاندی (نقدین) پر جن کے لین دین کا دارومدار وزن پر ہے۔ کسی اور چیز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ باقی چار چیزوں پر قیاس ضروری ہے۔ 8۔ امام املک کے نزدیک جو چیزیں غذا کا بنیادی حصہ ہیں۔ اور ان کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ ان میں اگر ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس سے کیا جا رہا ہے۔ تو انہیں حدیث میں مذکور چار غذائی اشیاء پرقیاس کیا جائےگا۔ اور ان کا سودا نقداور برابر کرنا ہوگا۔ امام شافعی مطلقا تمام غذائی اجناس کو ان چار پر قیاس کرتے ہیں۔ 9۔ احناف کے ہاں حدیث میں چھ کی چھ اشیاء میں بنیادی وجہ قیاس یہ ہے کہ ان کا لین دین ناپ تول کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ شے جو ناپ کر یا تول کر بیچی جاتی ہے۔ اس کا حکم وہی ہوگا جو حدیث میں چھ اشیاء کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ 10۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ تمام علمائے اہل بیت کی رائے یہی ہے اور امام ابو حنیفہ نے اپنا مسلک انہیں سے لیا ہے۔ (نیل الأوطار،کتاب البیوع، باب مایجری فیه الریا) 11۔ اما م مالک کے مسلک میں سب سے زیادہ وسعت اور آسانی پائی جاتی ہے۔ یعنی سونا چاندی یا کرنسی کے علاوہ ان اشیاء کو حدیث میں ذکر کردہ چار اشیاء پر قیاس کرنا چاہیے۔ جو کسی جگہ انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عرب میں بہت سی اشیاء موجود تھیں۔ جن کا لین دین ناپ اور تول کے ذریعے سے ہوتا تھا۔ آپ نے صرف ان چار اشیاء کا نام لیا ہے۔ جو اس معاشرے کی بنیادی غذا تھیں۔ لیکن آپ نے ان میں سے کسی اور چیز کو ان چار چیزوں کے ساتھ شامل نہیں فرمایا۔ 12۔ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے انواع مختلف ہونے کی تفصیل بیان فرما دی ہے۔ چاندی کے بدلے سونا جو کے بدلے گندم وغیرہ فروخت کی جائے۔ تو کمی بیشی جائز ہے۔ ادھار جائز نہیں۔ 13۔ مدی (میم پرپیش اور دال ساکن ہے)علاقہ شام اور مصر میں مروج غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ ہے جس میں 522صاع آتے ہیں۔
تجارت‘نفع کی امید پر اشیائے ضرورت خریدنے اور جہاں ضرورت ہو وہاں لے جا کر بیچنے کا نام ہے ۔ یہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔علم معیشت کے مطابق تجارت دولت کی گردش اور روزگار کی فراہمی میں اہم ترین کر دار ادا کرتی ہے اسلام نے صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے اونچے درجے کا عمل صالح قرار دیا ہے ۔حرص اور لالچ کے مارے ہوئے لوگوں نے دنیا کے ہر اچھے عمل کی طرح تجارت جیسے مفید علم کو بھی لوٹ مار ‘دوسروں کا حق غضب کرنے ‘ناجائز مفاد حاصل کرنے اور دھوکے سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جدید سوسائٹی نے تو بعض استحصالی طریقوں (مثلاًسود) کو اپنی معیشت کا بنیادی اصول بنا لیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام مخفی استحصالی راستوں کا دروازہ بھی بند کر دیا جو تجارت کو عدل سے ہٹا کر ظلم وعدوان پر استوار کرتے ہیں۔ تاریخ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پہلی اور آخری ہستی ہیں جنہوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح عمل تجارت کو استحصال او رلوٹ مار سے مکمل طور پر پاک صاف کر دیا ۔آپ ﷺ نے انتہائی باریک بینی سے رائج نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی قطعی حدود کا تعین فرما دیا۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے عمل تجارت ہر طرح کے ظلم و جور سے پاک رہتا ہے اور اس کی مغفرت کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے ۔تجارت کے عمل میں خریدار ‘فروخت کرنے والا‘مال تجارت اور معاہدہ ٔ تجارت بنیادی اجزا ہیں۔معاہدہ تجارت کے حوالے سے قرآن مجید نے ’’تراضى‘‘ کو بنیادی اصول قرار دیا ہے ۔ تراضى ‘بیع کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے آزاد فیصلے سے رضا مند ہونے کا نام ہے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تجارت کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
(1) تجارت کی باہمی تراضى (باہمی رضا مندی) ہے ۔ اگر کسی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی۔
(2) معاہدۂ بیع کے دونوں فریق (خریدار ‘فروخت کرنے والا) فیصلے میں آزاد ‘ہر پہلو پر مطلع اور معاہدۂ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوتے چاہییں اگر ایسا نہیں تو تجارت کا عمل درست نہ ہوگا۔
(3) معاہدہ ٔ بیع میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہیں یا کسی فریق کر ناروا پابندیوں میں جکڑتی ہیں یا کسی ایک فریق کے جائز مفادات کی قیمت پر دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ایسی شرائط سے معاہدۂ بیع فاسد ہو جائے گا۔
(4) اگر ایک فریق نے دوسرے کے بے خبر رکھا ‘دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو بیع جائز نہ ہوگی۔
(5) اگر مال تجارت کی مقدار یا اس کی افادیت کے تعین میں شبہ ہو‘اس کی بنیادی صفات کے بارے میں کچھ پہلو مبہم ہوں‘ اس کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ مخدوش ہو یا اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی تو ایسی بیع جائز نہیں ہو گی۔
(6) مال تجارت حلال‘کسی نہ کسی طرح فائدہ اور ہر قسم کے خفیہ عیب سے پاک ہوتا چاہیے اگر سرے سے مال تجارت حرم یا غیر مفید ہو یا اس کے عیب کو چھپایا گیا ہوتو اس کی تجارت رواقرار نہیں دی جائے گی۔
(7) تجارت ایک مثبت عمل ہے اس سے تمام فریقوں کا مفاد محفوظ ہونا چاہیے ‘اگر معاہدۂ بیع محسوس یا غیر محسوس طریق پر کسی ایک فریق کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہو یا ظاہراً با ہمی رضا مندی کے باوجود محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ظلم کا سبب ہو تو بیع درست نہیں ہوگی ۔
(8) اگر خریدو فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہو تو انصاف اور تراضی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔
(9) اگر باہمی خریدوفروخت میں سودی معاملات داخل ہو جائیں تو پھر بھی تجارت جائز نہ ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے بیوع کے حوالے سے جو حدود متعین فرمائی ہیں ان کے ذریعے سے خریدوفروخت کا پورا نظام ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک اور مکمل طور پر انسانی فائدے کا ضامن بن جاتا ہے ان کے نتیجے میں بازار یا منڈی کا ماحول حد درجہ سازگار ہو جاتا ہے اور معیشت میں بے انتہا وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی تجارت کے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بہت مستحکم ہو جاتی ہے۔امام ابوداود نے اپنی سنن میں جو احادیث جمع کی ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے نظام خریدو فروخت کے نمایاں پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔
تمہید باب
فائدہ۔عام طور پرخریدوفروخت کرنسی کےزریعے سے ہوتی ہے۔ابتدائی دو ر میں بلکہ بعض دیہات میں آج کل بھی غلہ کپاس وغیرہ دے کرضرورت کی دوسری اشیاء حاصل کی جاتی ہیں۔ اس کو عربی میں مقايضه(Barter) کہاجاتا ہے۔سونے کو سونے چاندی کو چاندی یا ایک کرنسی کواس کرنسی کے بدلے خریدنے بیچنے کوعربی میں ''مراطله''کہاجاتا ہے۔سونے کو چاندی یا ایک کرنسی کو دوسری کے عوض خریدنے بیچنے کو ''صَرفُ''(Exchang) کہا جاتاہے۔تبادلے کے اعتبار سے بیوع کی یہی چار بنیادی صورتیں ہیں۔
مراطله میں شرط یہ ہے کہ تبادلے کی دونوں کی مقدار ایک جتنی ہوا اور سودا نقد ہو۔بنیادی غذائی اجناس کے مقايضهمیں شرط یہ ہے کہ سودا نقد ہو اور ان کے باہمی تبادلے میں کمی بیشی نہ کی جائے۔(اسلام نے ہم جنس اشیاءکےتبادلے میں کمی بیشی یا ادھار دونوں کو ربا قراردیا ہے۔اوراس کو شرعی اصطلاح میں ربا الفضل کہا جاتا ہے۔)بیع صرف یعنی سونے کو چاندی یا ایک کرنسی کو دوسری کرنسی کے عوض بیچنے کی صورت میں مقدار میں کمی بیشی جائز ہے۔ایک سو گرام سونے کے بدلے کئی سو گرام چاندی یا ایک ریال کے بدلے کئی روپے خریدنا بیچنا درست ہے۔مگر ادھار کی اجازت نہیں اگر آپ ریال کے عوض روپے خریدنا چاہتے ہیں۔ تو جس وقت ریال دیں اسی وقت روپے حاصل کرلیں۔ اگر ایک طرف سے بھیتاخیرہوئی تو اسلام کی طرف سے یہ سود ہوگا۔یہ آج کل کا عام مشاہدہ ہے کہ کرنسیوں کی شرح تبادلہ اور سونے چاندی کا ریٹ لمحہ بہ لمحہ بدلتا رہتا ہے۔ فوری تبادلہ نہ ہو اور ایک چیز دے کر اس کے بدلے دوسری چیز حاصل کرنے میں تاخیر ہوگئی۔ تو ریٹ بدل چکا ہوگا۔حدیث میں مذکورہ چار بنیادی غذائی اجناس کے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلے میں بھی یہی حکم ہوگا۔یعنی کمی وبیشی جائز ہوگی ادھار جائز نہ ہوگا۔
کرنسی کے بدلے اشیاء کی نقد خریدوفروخت تو ہروقت بجاطور پر جاری رہتی ہے۔اس میں ادھار بھی جائز ہے۔مثلا آپ قیمت نقد ادا کردیتے ہیں۔اور چیز بعد میں لینا طے کرتے ہیں۔تو اسے بیع سلم کہتے ہیں۔یہ بیع بھی قطعی طور پر جائز ہے۔(ماخوذ ازفتح الباری باب الورق بالذھب نسیۃ )لیکن اگر قیمت اور جنس دونوں ادھار رکھے جائیں تو یہ جائز نہیں نہ اسے بیع سلم ہی کہا جاسکتاہے۔
ابواشعث صنعانی نے یہ حدیث بواسطہ سیدنا عبادہ بن صامت ؓ نبی کریم ﷺ سے کسی قدر کمی بیشی سے روایت کی ہے اور اضافہ یہ کیا: ”جب یہ انواع مختلف ہوں تو جیسے چاہو بیچو جبکہ معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ ہم جنس اشیاء کی باہمی خریدوفروخت کے بارے میں اسلام ن جو ضابطہ دیا ہے اس کے حوالے سے آج کل یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔ کہ اگر ایک جنس مثلا کھجور۔ بہتر قسم کی ہو۔ اور دوسری گھٹیا کوالٹی کی ہو تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہوسکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اسلام ہر صورت میں عدل وانصاف کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے ان اشیاء کی خریدوفروخت میں جو انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ عدل پرزور دیا ہے۔ 2۔ ہرنوع کی کھجور یا گندم بنیادی طور پرانسان کی بھوک مٹاتی ہے۔ اگر محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کےلئے تبادلہ مقصود ہے تو بلاشک تبادلہ کرلو بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔ تبادلے میں دونوں کی مقدار برابر رکھو یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ 3۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے۔ کہ غذائی ضرورت پوری کرنے میں ایک نوع دوسری سے بہتر ہے مثلا یہ کہ ایک نوع کی نسبتاً کم مقدار دوسری نوع کی زیادہ مقدار کے برابر بھوک مٹاتی ہے۔ یا ایک کا ذائقہ اتنا بہتر ہے کہ دوسری نوع کی زیادہ مقدار پہلی نوع کے مقابلے میں ہونی چاہیےتو عام آدمی کے پاس ایسا کوئی آلہ کوئی ترازو موجود نہیں جو عدل وانصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کرسکے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہ عطا فرمایا کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض بیچ دواسی طرح اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض خرید لو اس طرح عد ل وانصاف کے تقاضے صحیح معنی میں پورے ہوجایئں گے۔ کوالٹی کا فرق کتنا ہے اس کو وزن یا ماپ کے ذریعے سے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ قیمت کے ذریعے سے متعین کیا جاسکتا ہے۔ کوالٹی کے تعین کےلئے قیمت میں ایک ہی جانبدار او مناسب ترین ذریعہ ہے۔ 4۔ اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ محض وزن میں کمی زیادتی کے ذریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں سے کسی ایک فریق کا حق مارا جائے گا۔ کوالٹی کا فرق متعین کرنے کےلئے وزن کو معیار بنایا جائے۔ تو تراضی یا باہمی رضا مندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے ا سی لئے بیع جائز نہیں ہوسکتی۔ 5۔ اس سلسلے میں ایک اور سوال کافی عرصے سے زیر بحث چلا آرہا ہے کہ برابری دست بدست تبادلے کی شرط محض ان چھ اشیاء کی خریدوفروخت میں ہے۔ یا ان جیسی دوسری اشیاء کی بیع کےلئے بھی ہے۔ ظاہری (وہ لوگ جو قرآن یا حدیث کے ظاہری معنی تک محدودرہتے ہیں۔) حدیث میں مذکور محض ان چھ اشیاء کےلئے اس حکم کو محدود رکھتے ہیں۔ باقی اشیاء میں اگر ہم جنس کا تبادلہ کمی بیشی سے ہویا ادھار تو اسے ربوالفضل قرار نہیں دیتے۔ لیکن باقی تمام مکاتب فکردوسری اشیاء کو بھی ان پر قیاس کرتے ہیں۔ اور یہی درست نقطہ نظرہے۔ 6۔ پاکستان اور ارد گرد کے ملکوں میں جس طرح گندم بنیادی غذائی جنس ہے۔ اس طرح مشرق بعید (ملائشیا۔ انڈونیشیا۔ جاپان کوریا وغیرہ) میں چاول خورا ک کا بنیادی حصہ (سٹیپل فوڈ) ہے عرب اور ارد گرد کے ممالک میں جو حیثیت کھجور کی ہے۔ پاکستان کے شمالی حصوں بلتستان وغیر ہ میں وہی حیثیت خوبانی کی او بحیرہ روم کے علاقوں میں کشمش کی ہے۔ اس لئے ان اشیاء کو گندم جو اور کھجور پر قیاس کرنا چاہیے۔ 7۔ قیاس کی بنیادی وجہ (علت قیاس) کے بارے میں البتہ مختلف مکاتب فکر میں اختلاف ہے، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک سوناچاندی (نقدین) پر جن کے لین دین کا دارومدار وزن پر ہے۔ کسی اور چیز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ باقی چار چیزوں پر قیاس ضروری ہے۔ 8۔ امام املک کے نزدیک جو چیزیں غذا کا بنیادی حصہ ہیں۔ اور ان کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ ان میں اگر ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس سے کیا جا رہا ہے۔ تو انہیں حدیث میں مذکور چار غذائی اشیاء پرقیاس کیا جائےگا۔ اور ان کا سودا نقداور برابر کرنا ہوگا۔ امام شافعی مطلقا تمام غذائی اجناس کو ان چار پر قیاس کرتے ہیں۔ 9۔ احناف کے ہاں حدیث میں چھ کی چھ اشیاء میں بنیادی وجہ قیاس یہ ہے کہ ان کا لین دین ناپ تول کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ شے جو ناپ کر یا تول کر بیچی جاتی ہے۔ اس کا حکم وہی ہوگا جو حدیث میں چھ اشیاء کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ 10۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ تمام علمائے اہل بیت کی رائے یہی ہے اور امام ابو حنیفہ نے اپنا مسلک انہیں سے لیا ہے۔ (نیل الأوطار،کتاب البیوع، باب مایجری فیه الریا) 11۔ اما م مالک کے مسلک میں سب سے زیادہ وسعت اور آسانی پائی جاتی ہے۔ یعنی سونا چاندی یا کرنسی کے علاوہ ان اشیاء کو حدیث میں ذکر کردہ چار اشیاء پر قیاس کرنا چاہیے۔ جو کسی جگہ انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عرب میں بہت سی اشیاء موجود تھیں۔ جن کا لین دین ناپ اور تول کے ذریعے سے ہوتا تھا۔ آپ نے صرف ان چار اشیاء کا نام لیا ہے۔ جو اس معاشرے کی بنیادی غذا تھیں۔ لیکن آپ نے ان میں سے کسی اور چیز کو ان چار چیزوں کے ساتھ شامل نہیں فرمایا۔ 12۔ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے انواع مختلف ہونے کی تفصیل بیان فرما دی ہے۔ چاندی کے بدلے سونا جو کے بدلے گندم وغیرہ فروخت کی جائے۔ تو کمی بیشی جائز ہے۔ ادھار جائز نہیں۔ 13۔ مدی (میم پرپیش اور دال ساکن ہے)علاقہ شام اور مصر میں مروج غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ ہے جس میں 522صاع آتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبادہ بن صامت ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث کچھ کمی و بیشی کے ساتھ روایت کی ہے، اس حدیث میں اتنا اضافہ ہے کہ جب صنف بدل جائے (قسم مختلف ہو جائے) تو جس طرح چاہو بیچو (مثلا سونا چاندی کے بدلہ میں گیہوں جو کے بدلہ میں) جب کہ وہ نقدا نقد ہو۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The tradition mentioned above has also been transmitted by 'Ubadah b. al-Samit through a different chain of transmitters with some alternation. This version adds: "He said: If these classes differ, sell as you wish if payment is made on the spot".