مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3393.
جناب حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے پوچھا کہ زمین کو کرایہ پر دینا کیسا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا سونے اور چاندی کے بدلے بھی منع ہے؟ تو کہا کہ سونے اور چاندی کے بدلے میں کوئی حرج نہیں۔
تشریح:
ان سب احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ زمیندار (مزارعت میں) ایک ہی کھیت میں اپنے اور مزارع کےلئے الگ الگ حصوں کی پیداوار متعین کرلے تو اسطرح کی مزارعت ناجائز ہے۔ اور یہی وہ فاسد شرط ہے۔ جس کی موجودگی میں بٹائی کو ممنوع قراردیا گیا ہے۔ یہ قباحت نہ ہو بلکہ زمین متعین رقم یعنی ٹھیکے پر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
تجارت‘نفع کی امید پر اشیائے ضرورت خریدنے اور جہاں ضرورت ہو وہاں لے جا کر بیچنے کا نام ہے ۔ یہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔علم معیشت کے مطابق تجارت دولت کی گردش اور روزگار کی فراہمی میں اہم ترین کر دار ادا کرتی ہے اسلام نے صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے اونچے درجے کا عمل صالح قرار دیا ہے ۔حرص اور لالچ کے مارے ہوئے لوگوں نے دنیا کے ہر اچھے عمل کی طرح تجارت جیسے مفید علم کو بھی لوٹ مار ‘دوسروں کا حق غضب کرنے ‘ناجائز مفاد حاصل کرنے اور دھوکے سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جدید سوسائٹی نے تو بعض استحصالی طریقوں (مثلاًسود) کو اپنی معیشت کا بنیادی اصول بنا لیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام مخفی استحصالی راستوں کا دروازہ بھی بند کر دیا جو تجارت کو عدل سے ہٹا کر ظلم وعدوان پر استوار کرتے ہیں۔ تاریخ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پہلی اور آخری ہستی ہیں جنہوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح عمل تجارت کو استحصال او رلوٹ مار سے مکمل طور پر پاک صاف کر دیا ۔آپ ﷺ نے انتہائی باریک بینی سے رائج نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی قطعی حدود کا تعین فرما دیا۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے عمل تجارت ہر طرح کے ظلم و جور سے پاک رہتا ہے اور اس کی مغفرت کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے ۔تجارت کے عمل میں خریدار ‘فروخت کرنے والا‘مال تجارت اور معاہدہ ٔ تجارت بنیادی اجزا ہیں۔معاہدہ تجارت کے حوالے سے قرآن مجید نے ’’تراضى‘‘ کو بنیادی اصول قرار دیا ہے ۔ تراضى ‘بیع کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے آزاد فیصلے سے رضا مند ہونے کا نام ہے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تجارت کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
(1) تجارت کی باہمی تراضى (باہمی رضا مندی) ہے ۔ اگر کسی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی۔
(2) معاہدۂ بیع کے دونوں فریق (خریدار ‘فروخت کرنے والا) فیصلے میں آزاد ‘ہر پہلو پر مطلع اور معاہدۂ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوتے چاہییں اگر ایسا نہیں تو تجارت کا عمل درست نہ ہوگا۔
(3) معاہدہ ٔ بیع میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہیں یا کسی فریق کر ناروا پابندیوں میں جکڑتی ہیں یا کسی ایک فریق کے جائز مفادات کی قیمت پر دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ایسی شرائط سے معاہدۂ بیع فاسد ہو جائے گا۔
(4) اگر ایک فریق نے دوسرے کے بے خبر رکھا ‘دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو بیع جائز نہ ہوگی۔
(5) اگر مال تجارت کی مقدار یا اس کی افادیت کے تعین میں شبہ ہو‘اس کی بنیادی صفات کے بارے میں کچھ پہلو مبہم ہوں‘ اس کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ مخدوش ہو یا اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی تو ایسی بیع جائز نہیں ہو گی۔
(6) مال تجارت حلال‘کسی نہ کسی طرح فائدہ اور ہر قسم کے خفیہ عیب سے پاک ہوتا چاہیے اگر سرے سے مال تجارت حرم یا غیر مفید ہو یا اس کے عیب کو چھپایا گیا ہوتو اس کی تجارت رواقرار نہیں دی جائے گی۔
(7) تجارت ایک مثبت عمل ہے اس سے تمام فریقوں کا مفاد محفوظ ہونا چاہیے ‘اگر معاہدۂ بیع محسوس یا غیر محسوس طریق پر کسی ایک فریق کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہو یا ظاہراً با ہمی رضا مندی کے باوجود محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ظلم کا سبب ہو تو بیع درست نہیں ہوگی ۔
(8) اگر خریدو فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہو تو انصاف اور تراضی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔
(9) اگر باہمی خریدوفروخت میں سودی معاملات داخل ہو جائیں تو پھر بھی تجارت جائز نہ ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے بیوع کے حوالے سے جو حدود متعین فرمائی ہیں ان کے ذریعے سے خریدوفروخت کا پورا نظام ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک اور مکمل طور پر انسانی فائدے کا ضامن بن جاتا ہے ان کے نتیجے میں بازار یا منڈی کا ماحول حد درجہ سازگار ہو جاتا ہے اور معیشت میں بے انتہا وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی تجارت کے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بہت مستحکم ہو جاتی ہے۔امام ابوداود نے اپنی سنن میں جو احادیث جمع کی ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے نظام خریدو فروخت کے نمایاں پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔
تمہید باب
امام بخاری نے وضاحت سے ذکر فرمایا ہے۔کہ مدینہ کے تمام مہاجر گھرانے تہائی یا چوتھائی پراپنی زمین کاشت کرنے کےلئے دیتے تھے۔حضرت علی سعد بن مالک عبد اللہ بن مسعود عمر بن عبد العزیز حضرت زبیر کےبیٹے قاسم اور عروہ حضرت ابو بکر اور حضرت علی کے خاندان مزارعت پر زمین کاشت کراتے تھے۔آئمہ میں حسن بصری ۔ابن سیرین ۔ امام احمد ۔اامام بخاری ۔امام ابو حنیفہ کے شاگرد امامام ابو یوسف اور امام محمدسبھی مزارعت کے جوازکے قائل ہیں۔ان سب کی دلیل یہی تھی کہ رسول اللہ نے خود فتح خیبر کے بعد بیت المال کی زمین جو کہ کچھ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھی اور کچھ فے کی صورت میں خیبر کے یہودیوں کومزارعت پر دی تھی۔ان سے طے پایا تھاکہ وہ کاشت کریں گے۔اور پیدا وار کا آدھا رسول اللہ ﷺ کودیں گے۔رسول اللہ ﷺنے اپنی اذواج مطہرات کےلئے اس آمدنی سے خرچہ مقرر کررکھا تھا۔ہر زوجہ محترمہ کو اسی وسق خشک کھجور اور بیس وسق جو ملتے تھے خلفائے راشدین کے زمانے تک مزارعت پرعمل اسی طرح جاری رہا۔(صحیح البخاری مع فتح الباری کتاب الحرث والمزاعۃ بابالمزارعۃ بالشرط ونحوہ وباب المزارعۃ مع الیہود وباب اذا قال ر ب الارض اقرك ما اقرك الله)
حضرت عبد اللہ بن عمر رسول اللہ ﷺ اور بعد ا زاں تمام خلفائے راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عہد تک اپنی کھیتیاں مزارعت پر دیتے رہے۔حتیٰ کہ حضرت معاویہ کے عہد میں ان کوحضرت رافع بن خدیج کے حوالے سے یہ بات پہنچی کے رسول اللہ ﷺ نے کرائے پر کھیتیاں دینے سے منع فرمایا تھا۔انہوں نے کہا یہ کہ میرے علم کے مطابق تو یہی ہے کہ عہد رسالت ﷺ میں اس طریق پر عمل رہا۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کے کہیں رسول اللہ ﷺنے منع فرمادیا ہو اور انھیں علم نہ ہواہو مزارعت کا طریق چھوڑ دیا۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔کہ کوئی انسان اپنی زمین اگر خود کاشت نہیں کر رہاتو کسی دوسرے کوکاشت کےلئے دے دے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بقول آپ کے الفاظ یہ ہیں۔''اگر تم میں سے کوئی (زمین )اپنے بھائی کو دے دے۔تو یہ اس پر متعین حصہ لینے سے بہتر ہے۔''حضرت عبد اللہ بن عمر کو حضرت رافع کی وساطت سے جو اجمالی حکم پہنچا اور رسول اللہ ﷺ نے بطوراحسان دوسرے کو اپنی زمین کاشت کرنے کی جو تلقین کی۔انکی بنیاد پرعہد خلفائے راشدین رضوان اللہ عنہم اجمیعن کے بعد یہ بحث چلپڑی۔کہ مزارعت (بٹائی/ٹھیکہ) پرکاشت کرنے کی اجازت ہے بھی یا نہیں۔آج کل جب بھی جاگیرداروں کے رواایتی کرتوت سامنے آتے ہیں۔ تو یہ بحث پھر سے چھڑ جاتی ہے کہ جو زمین خود کاشت نہیں ہوسکتی۔دوسروں کو کیوں نہ دے دی جائے۔؟اور وہ احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں جو اختصار اور اجمال پر مبنی ہیں۔ وہ ورایتیں جن سےمزارعت کو ممنوع ثابت کیا جاتا ہے۔وہ ساری مختصر روایات ہیں۔ زیادہ تر وہ حضرت رافع بن خدیج اور حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے مروی ہیں۔لیکن انہی دونوں حضرات سے مروی مفصل روایتیں حقیقت حال کواضح کردیتی ہیں۔سنن ابو دائود کے مشہور شارح امام خطابی نے بطور خاص اسطرف اشارہ کیا ہے۔کہ امام ابو دائود نے حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو مجمل روایات سب سے پہلے نقل کی ہے۔اس کی تفسیر حضرت رافع او ر دیگر صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمیعن کی ان احادیث سے ہوتی ہے۔ جو تفصیل سے روایت کی گئی ہیں۔ اما م ابو دائود نے اس مسئلے کی تفہیم کےلئے یہ انداز اختیار کیا کہ پہلی حدیث حضرت رافعرضی اللہ تعالیٰ عنہ ک مجمل الفاظ پرمشتمل ہے۔ اور ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عباس کی وضاحت ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مزارعت کی بجائے بلامعاوضہ دوسرے کو کاشت کرنے کےلئے دینے کی بات کی ہے تو مقصد یہ تھاکہاپنی زمین بطور احسان دوسروں کو دینے کی فضیلت واضح ہوجائے۔اگلی حدیث میں حضرت زید بن ثابت کے حوالے سے یہ واضح کردیا گیا کہ منع کے الفاظ جوحضرت رافع نے رسول اللہ ﷺ سے سنے تھے۔وہ آپ کی پوری بات کا صرف آخری حصہ تھا۔جسے حضرت رافع نےپوری بات سمجھ لی۔
اس سے اگلی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مزارعت اس طرح کی جاتی تھی۔کے کھیت کی نالیوں کے کنارے اور کھیت کے جو حصے پانی کے بہائو سے خود بخودسیراب ہوجاتے تھے۔انہیں مالک اپنے لئے خاص کرلیتا تھا۔ظاہر ہے اس طرحکئی جھگڑے پیدا ہوئے تھے۔کہ زمین کا کتنا حصہ خودسیراب ہو۔ یا نالیوں کے کنارےکہاں تک کی پیداوار پر کاشت کار نے محنت نہیں کی وغیرہ۔ان جھگڑوں سے بچنے کےلئے رسول اللہ ﷺ نے حصے پر کاشت کروانے کی بجائے نقدی کے عوض زمین دینے کی تلقین فرمائی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مزارعت مطقاً ممنوع نہیں۔ہاں اگر جھگڑوں کا خدشہ ہو تو نقدزمین ٹھیکے پر دینی چاہیے۔
اس سے اگلی روایت میں خودحضرت رافع نے مزارعت کی وہ صورت بیان کی ہے۔جو اسلام سےپہلے رائج تھی۔اور اس میں کئی قباحتیں پیش آتی تھیں۔اسی صورت کو اسلام نے ممنوع قراردیا۔حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ زمین دینے والے پانی کے راستوں چھوٹی نالیوں کے کناروں اور نالیوں کے سرے پرواقعپر زمین کی پیداوار کو اپنے لئے مخصوص کرلیتے۔پھر جب فصل پکتی تو کبھی ایک حصے کی پیداوار بہتر ہوجاتی۔ اوردوسرے کی خراب اور کبھی اس کے برعکس حضرت رافع کہتے ہیں۔''اس وقت مزارعت کی صرف یہی صورت معروف تھی'' رسول اللہ ﷺ نے مزارعت کی اس صورت سے منع فرمادیا۔اور وہ صورتیں اختیار کرنے کا حکم دیا۔ جن میں حصے متعین اور محفوظ ہوں اس سے اگلی حدیث میں خود حضرت رافع سے نقدی کے عوض کاشت کےلئے زمین دینے کی اجازت مروی ہے۔
امام ابو دائود نے اس ترتیب کے ساتھ روایات بیان کرنے کے بعد جس سے مزارعت کی جائز صورتوں کی تفصیل واضح ہوگئی۔باب 31 میں ان تمام روایات کو زکر کیا ہے۔جن میں مجمل طریق پر مزارعت کی پہلے سے رائج شدہ ناقص اور مبنی برظلم صورت ناجائز ٹھرائی گئی ہے۔
جناب حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے پوچھا کہ زمین کو کرایہ پر دینا کیسا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا سونے اور چاندی کے بدلے بھی منع ہے؟ تو کہا کہ سونے اور چاندی کے بدلے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ان سب احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ زمیندار (مزارعت میں) ایک ہی کھیت میں اپنے اور مزارع کےلئے الگ الگ حصوں کی پیداوار متعین کرلے تو اسطرح کی مزارعت ناجائز ہے۔ اور یہی وہ فاسد شرط ہے۔ جس کی موجودگی میں بٹائی کو ممنوع قراردیا گیا ہے۔ یہ قباحت نہ ہو بلکہ زمین متعین رقم یعنی ٹھیکے پر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ انہوں نے رافع بن خدیج ؓ سے زمین کو کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے زمین کرایہ پر (کھیتی کے لیے) دینے سے منع فرمایا ہے، تو میں نے پوچھا: سونے اور چاندی کے بدلے کرایہ کی بات ہو تو؟ تو انہوں نے کہا: رہی بات سونے اور چاندی سے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi' ibn Khadij (RA): Hanzalah ibn Qays said that he asked Rafi' ibn Khadij about the lease of land. He replied: The Apostle of Allah (ﷺ) forbade the leasing of land. I asked: (Did he forbid) for gold and silver (i.e. dinars and dirhams)? He replied: If it is against gold and silver, then there is no harm in it.