مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3398.
جناب اسید بن ظہیر بیان کرتے ہیں کہ سیدنا رافع بن خدیج ؓ ہمارے پاس آئے اور کہا: رسول اللہ ﷺ تمہیں ایک کام سے منع فرماتے ہیں جو تمہارے لیے نفع آور تھا۔ مگر ﷲ اور رسول کی اطاعت تمہارے لیے اس سے بڑھ کر نفع آور ہے۔ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ تمہیں بٹائی پر کاشت کاری سے منع فرماتے ہیں۔ اور فرمایا ہے: ”جو کوئی اپنی زمین سے مستغنی ہو تو چاہیئے کہ اپنے بھائی کو عطیہ دیدے یا ویسے ہی چھوڑ دے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ شعبہ اور مفضل بن مہلہل نے اسے منصور سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ شعبہ نے کہا کہ اسید، سیدنا رافع بن خدیج کے بھتیجے ہیں۔
تشریح:
1۔ علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مختصر روایت آئی ہے۔ تفصیلی روایت میں اسید بن ظہیر کا کلام یوں ہے۔ ہم میں سے جب کوئی اپنی زمین کو خود کاشت نہ کرنا چاہتا۔ یا اس کا ضرورت مند ہوتا تو وہ اسے آدھی تہائی یا چوتھائی پر بٹائی پر دے دیا کرتا تھا۔ اور تین باتوں کی شرط ہوتی تھی کہ نالوں کے ساتھ ساتھ کی کاشت غلہ گاہنے کے بعد نیچے جو باقی رہے گا۔ اور وہ قطعات جو نالوں سے سیرات ہوتے ہوں گے۔ (مالک کے ہوں گے) الخ (نیل الأوطار: 312/5 باب فسادالعقد إذا شرط أحدھما لنفسه التبن أو بقعة یعینھا ونحوہ) 2۔ ویسے چھوڑ دینے کی صورت میں بھی بہت سے فائدے ہیں۔ اس زمین میں اگنے والی گھاس جانورچرتے ہیں۔ فطری پودے اور ان میں رہنے والے چھوٹے بڑے جانور ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔
تجارت‘نفع کی امید پر اشیائے ضرورت خریدنے اور جہاں ضرورت ہو وہاں لے جا کر بیچنے کا نام ہے ۔ یہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔علم معیشت کے مطابق تجارت دولت کی گردش اور روزگار کی فراہمی میں اہم ترین کر دار ادا کرتی ہے اسلام نے صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے اونچے درجے کا عمل صالح قرار دیا ہے ۔حرص اور لالچ کے مارے ہوئے لوگوں نے دنیا کے ہر اچھے عمل کی طرح تجارت جیسے مفید علم کو بھی لوٹ مار ‘دوسروں کا حق غضب کرنے ‘ناجائز مفاد حاصل کرنے اور دھوکے سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جدید سوسائٹی نے تو بعض استحصالی طریقوں (مثلاًسود) کو اپنی معیشت کا بنیادی اصول بنا لیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام مخفی استحصالی راستوں کا دروازہ بھی بند کر دیا جو تجارت کو عدل سے ہٹا کر ظلم وعدوان پر استوار کرتے ہیں۔ تاریخ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پہلی اور آخری ہستی ہیں جنہوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح عمل تجارت کو استحصال او رلوٹ مار سے مکمل طور پر پاک صاف کر دیا ۔آپ ﷺ نے انتہائی باریک بینی سے رائج نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی قطعی حدود کا تعین فرما دیا۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے عمل تجارت ہر طرح کے ظلم و جور سے پاک رہتا ہے اور اس کی مغفرت کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے ۔تجارت کے عمل میں خریدار ‘فروخت کرنے والا‘مال تجارت اور معاہدہ ٔ تجارت بنیادی اجزا ہیں۔معاہدہ تجارت کے حوالے سے قرآن مجید نے ’’تراضى‘‘ کو بنیادی اصول قرار دیا ہے ۔ تراضى ‘بیع کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے آزاد فیصلے سے رضا مند ہونے کا نام ہے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تجارت کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
(1) تجارت کی باہمی تراضى (باہمی رضا مندی) ہے ۔ اگر کسی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی۔
(2) معاہدۂ بیع کے دونوں فریق (خریدار ‘فروخت کرنے والا) فیصلے میں آزاد ‘ہر پہلو پر مطلع اور معاہدۂ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوتے چاہییں اگر ایسا نہیں تو تجارت کا عمل درست نہ ہوگا۔
(3) معاہدہ ٔ بیع میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہیں یا کسی فریق کر ناروا پابندیوں میں جکڑتی ہیں یا کسی ایک فریق کے جائز مفادات کی قیمت پر دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ایسی شرائط سے معاہدۂ بیع فاسد ہو جائے گا۔
(4) اگر ایک فریق نے دوسرے کے بے خبر رکھا ‘دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو بیع جائز نہ ہوگی۔
(5) اگر مال تجارت کی مقدار یا اس کی افادیت کے تعین میں شبہ ہو‘اس کی بنیادی صفات کے بارے میں کچھ پہلو مبہم ہوں‘ اس کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ مخدوش ہو یا اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی تو ایسی بیع جائز نہیں ہو گی۔
(6) مال تجارت حلال‘کسی نہ کسی طرح فائدہ اور ہر قسم کے خفیہ عیب سے پاک ہوتا چاہیے اگر سرے سے مال تجارت حرم یا غیر مفید ہو یا اس کے عیب کو چھپایا گیا ہوتو اس کی تجارت رواقرار نہیں دی جائے گی۔
(7) تجارت ایک مثبت عمل ہے اس سے تمام فریقوں کا مفاد محفوظ ہونا چاہیے ‘اگر معاہدۂ بیع محسوس یا غیر محسوس طریق پر کسی ایک فریق کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہو یا ظاہراً با ہمی رضا مندی کے باوجود محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ظلم کا سبب ہو تو بیع درست نہیں ہوگی ۔
(8) اگر خریدو فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہو تو انصاف اور تراضی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔
(9) اگر باہمی خریدوفروخت میں سودی معاملات داخل ہو جائیں تو پھر بھی تجارت جائز نہ ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے بیوع کے حوالے سے جو حدود متعین فرمائی ہیں ان کے ذریعے سے خریدوفروخت کا پورا نظام ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک اور مکمل طور پر انسانی فائدے کا ضامن بن جاتا ہے ان کے نتیجے میں بازار یا منڈی کا ماحول حد درجہ سازگار ہو جاتا ہے اور معیشت میں بے انتہا وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی تجارت کے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بہت مستحکم ہو جاتی ہے۔امام ابوداود نے اپنی سنن میں جو احادیث جمع کی ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے نظام خریدو فروخت کے نمایاں پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔
جناب اسید بن ظہیر بیان کرتے ہیں کہ سیدنا رافع بن خدیج ؓ ہمارے پاس آئے اور کہا: رسول اللہ ﷺ تمہیں ایک کام سے منع فرماتے ہیں جو تمہارے لیے نفع آور تھا۔ مگر ﷲ اور رسول کی اطاعت تمہارے لیے اس سے بڑھ کر نفع آور ہے۔ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ تمہیں بٹائی پر کاشت کاری سے منع فرماتے ہیں۔ اور فرمایا ہے: ”جو کوئی اپنی زمین سے مستغنی ہو تو چاہیئے کہ اپنے بھائی کو عطیہ دیدے یا ویسے ہی چھوڑ دے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ شعبہ اور مفضل بن مہلہل نے اسے منصور سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ شعبہ نے کہا کہ اسید، سیدنا رافع بن خدیج کے بھتیجے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مختصر روایت آئی ہے۔ تفصیلی روایت میں اسید بن ظہیر کا کلام یوں ہے۔ ہم میں سے جب کوئی اپنی زمین کو خود کاشت نہ کرنا چاہتا۔ یا اس کا ضرورت مند ہوتا تو وہ اسے آدھی تہائی یا چوتھائی پر بٹائی پر دے دیا کرتا تھا۔ اور تین باتوں کی شرط ہوتی تھی کہ نالوں کے ساتھ ساتھ کی کاشت غلہ گاہنے کے بعد نیچے جو باقی رہے گا۔ اور وہ قطعات جو نالوں سے سیرات ہوتے ہوں گے۔ (مالک کے ہوں گے) الخ (نیل الأوطار: 312/5 باب فسادالعقد إذا شرط أحدھما لنفسه التبن أو بقعة یعینھا ونحوہ) 2۔ ویسے چھوڑ دینے کی صورت میں بھی بہت سے فائدے ہیں۔ اس زمین میں اگنے والی گھاس جانورچرتے ہیں۔ فطری پودے اور ان میں رہنے والے چھوٹے بڑے جانور ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسید بن ظہیر کہتے ہیں ہمارے پاس رافع بن خدیج ؓ آئے اور کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ تم کو ایک ایسے کام سے منع فرما رہے ہیں جس میں تمہارا فائدہ تھا، لیکن اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہ ﷺ تم کو «حقل» سے یعنی مزارعت سے روکتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنی زمین سے بے نیاز ہو یعنی جوتنے بونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی زمین اپنے کسی بھائی کو (مفت) دیدے یا اسے یوں ہی چھوڑے رکھے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح سے شعبہ اور مفضل بن مہلہل نے منصور سے روایت کیا ہے شعبہ کہتے ہیں: اسید رافع بن خدیج ؓ کے بھتیجے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi' ibn Khadij (RA): Usayd ibn Zubayr said: Rafi' ibn Khadij came to us and said: The Apostle of Allah (ﷺ) forbids you from a work which is beneficial to you; and obedience to Allah and His Prophet (ﷺ) is more beneficial to you. The Apostle of Allah (ﷺ) forbids you from renting land for a share of its produce and he said: If anyone is not in need of his land he should lend it to his brother or leave it.