مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3401.
عثمان بن سہل بن رافع بن خدیج نے بیان کیا کہ میں یتیم تھا اور (اپنے دادا) سیدنا رافع بن خدیج ؓ کی سرپرستی میں تھا۔ میں نے ان کے ساتھ حج بھی کیا۔ میرا بھائی عمران بن سہل ان کے پاس آیا اور کہا کہ ہم نے اپنی زمین فلاں عورت کو دو سو درہم کے بدلے ٹھیکے پر دے دی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ اسے چھوڑ دو۔ نبی کریم ﷺ نے زمین کرائے (ٹھیکے) پر دینے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ خود حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزارعت کی جس صورت کے ممنوع ہونے کی خبر دی ہے۔ یہ ایسی ہی صورت پردی گئی ہوگی، اس لئے اسے منسوخ کرا دیا۔
تجارت‘نفع کی امید پر اشیائے ضرورت خریدنے اور جہاں ضرورت ہو وہاں لے جا کر بیچنے کا نام ہے ۔ یہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔علم معیشت کے مطابق تجارت دولت کی گردش اور روزگار کی فراہمی میں اہم ترین کر دار ادا کرتی ہے اسلام نے صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے اونچے درجے کا عمل صالح قرار دیا ہے ۔حرص اور لالچ کے مارے ہوئے لوگوں نے دنیا کے ہر اچھے عمل کی طرح تجارت جیسے مفید علم کو بھی لوٹ مار ‘دوسروں کا حق غضب کرنے ‘ناجائز مفاد حاصل کرنے اور دھوکے سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جدید سوسائٹی نے تو بعض استحصالی طریقوں (مثلاًسود) کو اپنی معیشت کا بنیادی اصول بنا لیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام مخفی استحصالی راستوں کا دروازہ بھی بند کر دیا جو تجارت کو عدل سے ہٹا کر ظلم وعدوان پر استوار کرتے ہیں۔ تاریخ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پہلی اور آخری ہستی ہیں جنہوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح عمل تجارت کو استحصال او رلوٹ مار سے مکمل طور پر پاک صاف کر دیا ۔آپ ﷺ نے انتہائی باریک بینی سے رائج نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی قطعی حدود کا تعین فرما دیا۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے عمل تجارت ہر طرح کے ظلم و جور سے پاک رہتا ہے اور اس کی مغفرت کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے ۔تجارت کے عمل میں خریدار ‘فروخت کرنے والا‘مال تجارت اور معاہدہ ٔ تجارت بنیادی اجزا ہیں۔معاہدہ تجارت کے حوالے سے قرآن مجید نے ’’تراضى‘‘ کو بنیادی اصول قرار دیا ہے ۔ تراضى ‘بیع کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے آزاد فیصلے سے رضا مند ہونے کا نام ہے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تجارت کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
(1) تجارت کی باہمی تراضى (باہمی رضا مندی) ہے ۔ اگر کسی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی۔
(2) معاہدۂ بیع کے دونوں فریق (خریدار ‘فروخت کرنے والا) فیصلے میں آزاد ‘ہر پہلو پر مطلع اور معاہدۂ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوتے چاہییں اگر ایسا نہیں تو تجارت کا عمل درست نہ ہوگا۔
(3) معاہدہ ٔ بیع میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہیں یا کسی فریق کر ناروا پابندیوں میں جکڑتی ہیں یا کسی ایک فریق کے جائز مفادات کی قیمت پر دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ایسی شرائط سے معاہدۂ بیع فاسد ہو جائے گا۔
(4) اگر ایک فریق نے دوسرے کے بے خبر رکھا ‘دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو بیع جائز نہ ہوگی۔
(5) اگر مال تجارت کی مقدار یا اس کی افادیت کے تعین میں شبہ ہو‘اس کی بنیادی صفات کے بارے میں کچھ پہلو مبہم ہوں‘ اس کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ مخدوش ہو یا اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی تو ایسی بیع جائز نہیں ہو گی۔
(6) مال تجارت حلال‘کسی نہ کسی طرح فائدہ اور ہر قسم کے خفیہ عیب سے پاک ہوتا چاہیے اگر سرے سے مال تجارت حرم یا غیر مفید ہو یا اس کے عیب کو چھپایا گیا ہوتو اس کی تجارت رواقرار نہیں دی جائے گی۔
(7) تجارت ایک مثبت عمل ہے اس سے تمام فریقوں کا مفاد محفوظ ہونا چاہیے ‘اگر معاہدۂ بیع محسوس یا غیر محسوس طریق پر کسی ایک فریق کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہو یا ظاہراً با ہمی رضا مندی کے باوجود محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ظلم کا سبب ہو تو بیع درست نہیں ہوگی ۔
(8) اگر خریدو فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہو تو انصاف اور تراضی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔
(9) اگر باہمی خریدوفروخت میں سودی معاملات داخل ہو جائیں تو پھر بھی تجارت جائز نہ ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے بیوع کے حوالے سے جو حدود متعین فرمائی ہیں ان کے ذریعے سے خریدوفروخت کا پورا نظام ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک اور مکمل طور پر انسانی فائدے کا ضامن بن جاتا ہے ان کے نتیجے میں بازار یا منڈی کا ماحول حد درجہ سازگار ہو جاتا ہے اور معیشت میں بے انتہا وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی تجارت کے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بہت مستحکم ہو جاتی ہے۔امام ابوداود نے اپنی سنن میں جو احادیث جمع کی ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے نظام خریدو فروخت کے نمایاں پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔
عثمان بن سہل بن رافع بن خدیج نے بیان کیا کہ میں یتیم تھا اور (اپنے دادا) سیدنا رافع بن خدیج ؓ کی سرپرستی میں تھا۔ میں نے ان کے ساتھ حج بھی کیا۔ میرا بھائی عمران بن سہل ان کے پاس آیا اور کہا کہ ہم نے اپنی زمین فلاں عورت کو دو سو درہم کے بدلے ٹھیکے پر دے دی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ اسے چھوڑ دو۔ نبی کریم ﷺ نے زمین کرائے (ٹھیکے) پر دینے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ خود حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزارعت کی جس صورت کے ممنوع ہونے کی خبر دی ہے۔ یہ ایسی ہی صورت پردی گئی ہوگی، اس لئے اسے منسوخ کرا دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عثمان بن سہل بن رافع بن خدیج کہتے ہیں میں رافع بن خدیج ؓ کے زیر پرورش ایک یتیم تھا، میں نے ان کے ساتھ حج کیا تو میرے بھائی عمران بن سہل ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم نے اپنی زمین دو سو درہم کے بدلے فلاں شخص کو کرایہ پر دی ہے، تو انہوں نے (رافع نے) کہا: اسے چھوڑ دو (یعنی یہ معاملہ ختم کر لو) کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے زمین کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: I read out (this tradition) to Sa'id b. Ya'qub al-Taliqini, and I said to him: Ibn al-Mubarak transmitted (this tradition) to you from Sa'id Abi Shuja' who said: 'Uthman b. Sahl b. Rafi' b. Khadij narrated it to me saying: I was an orphan being nourished under the guardianship of Rafi' b. Khadij and I performed Hajj with him. My brother 'Imran b. Sahl then came to me and said: We rented out land to so-and-so for two hundred dirhams. He said: Leave it, for the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) forbade renting land.