Abu-Daud:
Wages (Kitab Al-Ijarah)
(Chapter: Regarding The Earnings Of A Teacher)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3417.
جناب جنادہ بن ابی امیہ ؓ نے، سیدنا عبادہ بن صامت ؓ سے اس حدیث کی مانند روایت کیا اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ انگارہ ہے جسے تو نے اپنے کندھوں کے درمیان ڈال لیا ہے۔“
تشریح:
فائدہ۔ معلم (قرآن) کی کمائی قرآن مجید کی تعلیم دینے والے کی اجرت پر فقہاء نے طویل بحثیں کی ہیں۔ مختلف روایات عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمیعن اور آثار سلف کو سامنے رکھا جائے۔ تو قرآن مجید کی تعلیم کے حوالے سے تین صورتیں سامنے آتی ہیں۔ 1۔ قرآن مجید کی تعلیم مسلمان معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ تمام ایسے لوگ جو قرآن مجید کا علم رکھتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کام کاج سے وقت نکا ل کر قرآن مجید کی تعلیم دیں۔ جس طرح عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اصحاب صفہ رضوان اللہ عنہم اجمیعن میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ یہ عمل خالصتا لوجہ اللہ ہونا چاہیے۔ اس پر کسی طرح کی اجرت لینا ناجائز ہے۔ اس باب کی دونوں حدیثوں کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے لیکن دوسری روایات سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ جیسے حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمیعن کا ایک سفر میں دم کرکے اس کے بدلے میں بکریاں لینے کا واقعہ ہے جس کی نبی کریم ﷺ نے نفی فرمائی۔ بلکہ اس کی توثیق فرماکر اس کی تحسین فرمائی، (صحیح البخاري، الإجارة۔ باب ما یعطی في الرقیة) یہ واقعہ یہاں بھی اگلے باب میں آرہا ہے۔ ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق کی یہی صورت ہے۔ کہ تعلیم قرآن پر اس شخص کا اجرت لینا مستحسن نہیں جو اس سے بے نیاز ہو تاہم دوسرے لوگوں کےلئے اس کے جواز سے مفر نہیں۔ بالخصوص جب کہ موجودہ مسلمان ممالک میں حکومتی سطح پرتعلیم وتدریس قرآ ن کا قطعا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ یہ خبر دی کہ بعد کے زمانوں میں لوگ قرآن مجید پڑھ کر اس کے ذریعے لوگوں سے سوال کیا کریں گے۔ (جامع الترمذي، فضائل القرآن، باب:25) اس سے مراد ایسے لوگ ہیں۔ جن کا پیشہ ہی مانگنا ہوتا ہے۔ بھیک کےلئے قرآن کو استعمال کرنا چونکہ قرآن کی عظمت وحرمت کے منافی ہے۔ اس لئے واقعی یہ انداز مذموم اور حرام ہے۔ 4۔ اگر کوئی حکومت یا ادارہ محسوس کرے۔ کہ قرآن مجید کی تعلیم کے لئے عمومی کوششیں ناکافی ہیں۔ اور وہ ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کریں۔ جو دیگر ذرائع معاش کو ترک کرکے صرف اسی کام میں مشغول ہوجایئں۔ اور ہمہ وقت مدارس میں قرآن مجید کی تعلیم دیں۔ تو ان کے لئے مناسب وظیفہ معاش مقرر کرنا جائز ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ انتظام کیا تھا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمات حاصل کرکے انھیں شام بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن مجید پڑھایئں۔ اور فقہ سکھایئں (أسد الغابة) 5۔ تذکرہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ) حضرت عمران بن حصین کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دین سکھانے کےلئے بصرہ روانہ فرمایا۔ (أسد الغابة) 6۔ تذکرہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یہ بات قابل غو ر ہے کہ اپنے طور پرقرآن پڑھانے کی اجرت سے منع کرنے کی روایات حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے منقول ہیں۔ یہی حضرات قرآن مجید کی قراءت اور تعلیم کی طرف متوجہ تھے۔ اور یقینا ً اس پر کوئی اجرت قبول نہ فرماتے تھے۔ لیکن جب حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ حکومت کی طرف سے ان کی خدمات حاصل کیں تو انہوں نے یہ منصب قبول کرلیا۔
اجارہ اور اجر دونوں کا بنیادی مفہوم اُجرت پر کچھ دینا ہے قرآن مجید نے اُجرت کے الفاظ حضرت شعیب اور موسیٰ کے باہمی معاہدے کے ساتھ ساتھ دودھ پلانے والی عورت کے حق کے لیے بھی استعمال کیے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے (فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ)
فقہاء نے اجارہ کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اجارہ کسی چیز کو اپنی ملکیت میں رکھتے ہوئے متعین عوض (اجرت) کے بدلے مقررہ مدت کے لیے اس کی منفعت دوسرے کو دینے کا نام ہے ۔ جس طرح گھر اور سواری کرائے پر دی جاتی ہے یا جس طر ح کوئی مزدور اُجرت پر اپنی خدمات فروخت کرتا ہے ۔ان فقہاء کے نزدیک پھل دار درخت یا انگور کی بیل کرائے پر نہیں چڑھائی جا سکتی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے درخت یا بیل کا پھل دوسرے کو ملتا ہے اور وہ منفعت نہیں ’’ایک چیز‘‘ ہے جس کی ملکیت دوسرے کو منتقل ہوتی ہے نیز حاصل کرنے والا اسے صرف کر ڈالتا ہے ۔اسی طرح ان کے نزدیک دودھ دینے والے جانور دودھ وغیرہ کے لیے کرائے پر نہیں دیے جا سکتے کیونکہ دودھ منفعت نہیں ’’ایک چیز‘‘ ہے جو دوسرے کی ملکیت میں جا کر صرف ہوتی ہے ۔(فقہ السنہ 4/119‘الفقہ الاسلامی وادلتہ:4/733)
امام ابن قیم کے نزدیک اجارے کی جو تعریف فقہاء نے کی ہے اس میں دودھ پلانے والی عورت کے حق الخدمت کو اجرت قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ قرآن نے اس کو ’’اجر‘‘ قرار دیا ہے اس لیے فقہاء کی بیان کردہ تعریف درست نہیں ۔فقہاء نے او اپنی وضع کر دہ تعریف پر اصرار کرتے ہوئے الٹا قرآن کے حکم کو خلاف قیاس قرار دے دیا ہے اور کئی قسم کی تاویلیں اختیار کی ہیں ۔مثلاً یہ کہ مرضعہ کو اُجرت دودھ کی نہیں بلکہ بچے کو گود میں لینے اور سینے سے لگانے وغیرہ کی دی جاتی ہے دودھ اصل مقصود ہیں نہیں وہ ویسے ہی بچے کو حاصل ہو جاتا ہے ۔ابن قیم یہ تاویلیں نقل کر کے کہتے ہیں کہ ’’ان حضرات نے حقائق کو اُلٹ دیا ہے ۔مقصود (یعنی بچے کا بطور غذا دودھ پینا) کو ذریعہ قرار دیا ہے اور ذریعے (گود میں اُٹھانا‘ سینے سے لگانا ) کو مقصد بنا دیا ہے ۔(اعلام الموقعین:2/21‘22) اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہی تعریفیں انسانی کا وش ہیں ۔ جس میں غلطی کا امکان موجود رہتا ہے اجارے کی تعریف کرتے ہوئے قرآن نے جہاں اجر کا لفظ لولا ہے ‘ تعریف وضع کرتے ہوئے اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ کیونکہ قیاس تو ہوتا ہی نص قرآن یا نص حدیث کی بنیاد پر ہے ۔ یہ بات کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے کہ خود تعریف کر کے قرآن کے کسی حکم کو خلاف قیاس قرار دے دیا جائے۔امام ابن قیم کے نزدیک یہ اصول کہ اجارہ منفعت کا معاہدہ ہے عین یا چیز کا نہیں سرے ہی سے غلط ہے ان کے اپنے الفاظ میں:’’ اس اصل پر نہ قرآن دلالت کرتا ہے نہ سنت نہ اجماع اور نہ قیاس صحیح ۔‘‘ ان کے نزدیک جس طرح اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے اس کا منافع سے استفادے کا معاہدہ اجارہ ہوتا ہے اسی طرح اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے ان اشیاء کے بارے میں معاہدہ بھی جو بتدریج اس سے حاصل ہوتی رہتی ہیں ‘اجارہ ہی کہلاتا ہے اسی طرح ان کے نقظۂ نظر کے مطابق درخت یا دودھ دینے والے جانور کو اجارہ (کرایہ) پر دینا درست ہوگا کیونکہ قرآن نے دودھ پلانے والی (مُرْضِعَه) کے حق خدمت کو خود’’اجر‘‘ قرار دیا ہے (اعلام الموقعین‘ فصل ا جارۃ الظئر‘ ص31۔32)
امام ابن حزم کا موقف اگرچہ وہ نہیں جو ابن قیم کا ہے لیکن اعتراض کی حد تک دونوں میں اتفاق نظر آتا ہے ابن حزم کہتے ہیں امام مالک دودھ کے لیے ایک یا دو بھیڑوں کو اجارے پر دینا نا جائز سمجھتے ہیں لیکن دودھ ہی کے لیے پورا ریوڑ اجارے پر دینے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ اس معاملے میں صحیح ترین قیاس یہ ہے کہ ’’دودھ کی غرض سے ایک بھیڑ کے اجرے کو رضاعت کے لیے دودھ کی تعریف باقی فقہاء کی وضع کی ہوئی تعریف کے بالمقابل قیاس صحیح اور قرآن مجید کے قریب تر ہے ۔جدید اسلامی بنکاری میں لیزنگ (Leasing) کو اجارہ قرار دیا جاتا ہے اور اس تصور کو مغربی ممالک کے بنکوں میں بھی وسیع پیمانے پر اختیار کیا گیا ہے ۔بنکوں کے طریق کار کے مطابق چیز قانونی طور مالک ہی کی ملکیت رہتی ہے استعمال کے حقوق البتہ لینے والے کو حاصل ہوتے ہیں اجرت یا کرایہ اس طرح مقرر کیا جاتا ہے کہ بنک اپنے اثاثے کی قیمت کچھ منافع سمیت مقرر مدت میں بالاقساط وصول کر لیتا ہے یہ مدت عام طور پر وہی ہوتی ہے جو چیز بنانے والے کے مطابق یا عرف عام میں اس چیز کی طبعی عمر پوری ہو جاتی ہے ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:رپورٹ اسلامی نظریاتی کونسل)کا روغیرہ کی لیزنگ اسلامی طریقے پر اسی صورت کے مطابق کی جا سکتی ہے اس کو بنک فنانس لیز کہتے ہیں ۔
اگر کوئی چیز کم یا درمیانی مدت کے لیے اجارہ پر استعمال کے لیے دی جائے اور جب ایک استعمال کرنے والے کے ساتھ معاہدے کی مدت ختم ہو جائے تو مالک چیز اس سے واپس نے کر کسی دوسرے کو استعمال کے لیے اجارے پر دے دے تو اس کو بنک استعمالی اجارہ کہتے ہیں ۔
ہمارے ہاں بنکوں میں جن معاہدوں کو اجارے پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے ان میں اجارے کی شرعی شرائط میں سے بعض کی مخالفت کی جا رہی ہے اجارے کی اسلامی صورت کے مطابق اُجرت یا کرائے پر دی گئی چیز کو لاحق ہوتے والے خطرات اور نقصانات کا ذمہ دار مالک ہوتا ہے ‘چیز لینے والے پر اس سلسلے میں کوئی بار نہیں ڈالا جا سکتا ۔ جبکہ آج کل بنک یہ ذمہ داری اجارے پر چیز لینے والے فریق پر ڈال دیتے ہیں ۔ اگر اس قباحت کو درست کر لیا جائے تو بنک کا معاہدہ اجارہ شرعاً درست ہوگا ورنہ نہیں۔اگر امام ابن قیم کی وسیع تر تعریف کو قبول کر لیا جائے (جو کہ در حقیقت صحیح ترین تعریف ہے ) تو اسلامی بنکاری کا دائرہ بہ آسانی زرعی میدانوں تک پھیلا یا جا سکتا ہے ۔امام الوداود نے ترتیب کی مناسبت سے کتاب الاجارہ کو کتاب البیوع کے وسط میں رکھا ہے تقریباً گیارہ ابواب میں ذکر کی گئی احادیث مبارکہ معاہدۂ اجارہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں ۔زیادہ تر احادیث اجرت پر مختلف خدمات(معلم کی خدمات ‘معالج کی خدمات وغیرہ) حاصل کرنے کے بارے میں ہیں ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح کی خدمات میں اجارہ جائز ہوگا اور کس طرح کی خدمات میں نا جائز ہوگا ان احادیث کےذریعے سے معاہدۂ اجارہ کے مختلف پہلوؤں پر کیا روشنی پڑتی ہے ۔ اس کی تفصیل احادیث کے مطالب کے ضمن میں آئے گی۔
جناب جنادہ بن ابی امیہ ؓ نے، سیدنا عبادہ بن صامت ؓ سے اس حدیث کی مانند روایت کیا اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ انگارہ ہے جسے تو نے اپنے کندھوں کے درمیان ڈال لیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ۔ معلم (قرآن) کی کمائی قرآن مجید کی تعلیم دینے والے کی اجرت پر فقہاء نے طویل بحثیں کی ہیں۔ مختلف روایات عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمیعن اور آثار سلف کو سامنے رکھا جائے۔ تو قرآن مجید کی تعلیم کے حوالے سے تین صورتیں سامنے آتی ہیں۔ 1۔ قرآن مجید کی تعلیم مسلمان معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ تمام ایسے لوگ جو قرآن مجید کا علم رکھتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کام کاج سے وقت نکا ل کر قرآن مجید کی تعلیم دیں۔ جس طرح عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اصحاب صفہ رضوان اللہ عنہم اجمیعن میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ یہ عمل خالصتا لوجہ اللہ ہونا چاہیے۔ اس پر کسی طرح کی اجرت لینا ناجائز ہے۔ اس باب کی دونوں حدیثوں کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے لیکن دوسری روایات سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ جیسے حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمیعن کا ایک سفر میں دم کرکے اس کے بدلے میں بکریاں لینے کا واقعہ ہے جس کی نبی کریم ﷺ نے نفی فرمائی۔ بلکہ اس کی توثیق فرماکر اس کی تحسین فرمائی، (صحیح البخاري، الإجارة۔ باب ما یعطی في الرقیة) یہ واقعہ یہاں بھی اگلے باب میں آرہا ہے۔ ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق کی یہی صورت ہے۔ کہ تعلیم قرآن پر اس شخص کا اجرت لینا مستحسن نہیں جو اس سے بے نیاز ہو تاہم دوسرے لوگوں کےلئے اس کے جواز سے مفر نہیں۔ بالخصوص جب کہ موجودہ مسلمان ممالک میں حکومتی سطح پرتعلیم وتدریس قرآ ن کا قطعا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ یہ خبر دی کہ بعد کے زمانوں میں لوگ قرآن مجید پڑھ کر اس کے ذریعے لوگوں سے سوال کیا کریں گے۔ (جامع الترمذي، فضائل القرآن، باب:25) اس سے مراد ایسے لوگ ہیں۔ جن کا پیشہ ہی مانگنا ہوتا ہے۔ بھیک کےلئے قرآن کو استعمال کرنا چونکہ قرآن کی عظمت وحرمت کے منافی ہے۔ اس لئے واقعی یہ انداز مذموم اور حرام ہے۔ 4۔ اگر کوئی حکومت یا ادارہ محسوس کرے۔ کہ قرآن مجید کی تعلیم کے لئے عمومی کوششیں ناکافی ہیں۔ اور وہ ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کریں۔ جو دیگر ذرائع معاش کو ترک کرکے صرف اسی کام میں مشغول ہوجایئں۔ اور ہمہ وقت مدارس میں قرآن مجید کی تعلیم دیں۔ تو ان کے لئے مناسب وظیفہ معاش مقرر کرنا جائز ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ انتظام کیا تھا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمات حاصل کرکے انھیں شام بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن مجید پڑھایئں۔ اور فقہ سکھایئں (أسد الغابة) 5۔ تذکرہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ) حضرت عمران بن حصین کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دین سکھانے کےلئے بصرہ روانہ فرمایا۔ (أسد الغابة) 6۔ تذکرہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یہ بات قابل غو ر ہے کہ اپنے طور پرقرآن پڑھانے کی اجرت سے منع کرنے کی روایات حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے منقول ہیں۔ یہی حضرات قرآن مجید کی قراءت اور تعلیم کی طرف متوجہ تھے۔ اور یقینا ً اس پر کوئی اجرت قبول نہ فرماتے تھے۔ لیکن جب حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ حکومت کی طرف سے ان کی خدمات حاصل کیں تو انہوں نے یہ منصب قبول کرلیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی عبادہ بن صامت ؓ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، لیکن اس سے پہلی والی روایت زیادہ مکمل ہے، اس میں یہ ہے کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ تمہارے دونوں مونڈھوں کے درمیان ایک انگارا ہے جسے تم نے گلے کا طوق بنا لیا ہے یا اسے لٹکا لیا ہے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: جمہور نے اس کی اجازت دی ہے اور دلیل میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ جن کاموں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں بہتر اللہ کی کتاب ہے، نیز اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں تعلیم قرآن کے عوض عورت سے نکاح کا ذکر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A similar tradition has also been transmitted by 'Ubadah b. al-Samit through a different chain of narrators, but the former tradition is more perfect. This version has: I said: What do you think about it, Messenger of Allah? He said: A live coal between your shoulders which you have put around your neck or hanged it.