Abu-Daud:
Wages (Kitab Al-Ijarah)
(Chapter: Regarding Stud Fees For A Stallion)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3429.
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جانور کو جفتی کرانے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
فائدہ۔ مویشی پالنے والے جانتے ہیں۔ کہ چراگاہوں میں ریوڑوں کے ریوڑ چرتے پھرتے ہیں اور فطری طریقے پر جانوروں کا ملاپ ہوتا رہتا ہے۔ اس عمل کی اجرت یا قیمت نہ طے ہوسکتی ہے، نہ اس کی اجرت وصول کرنے کی غرض سے جانوروں کو فطری ملاپ سے روکنا روا ہے۔ حدیث مبارک مادہ جانوروں کا حق ہے۔ کہ نر جانور ان سے ملاپ کریں۔ (صحیح مسلم، حدیث: 988) اسی چیز پردلالت کرتی ہے۔ رسول اللہﷺنے اس قیمت پر یا اجرت طلب کرنے پر منع فرمایا ہے۔ البتہ ایک صحابی نے جب اصرار سے پوچھا کہ ہم جب (طلب کرنے پر) اپنا نر جانور لے جاتے ہیں۔ تو وہاں ہمارا اکرام کیا جاتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔ تو آپﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ اس اجازت سے پتہ چلتا ہے کہ باقاعدہ خریدوفروخت سے ہٹ کر جانور رکھنے والوں کی سہولت کےلئے لین دین کا جو رواج موجود ہے۔ اسے ختم کرکے سسٹم کو خراب کرنا مقصود نہیں۔ چراگاہوں کو چھوڑ کر باقی جگہوں پر بعض اوقات نرجانور آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکتے۔ اس صورت کو سامنے رکھ کر امام مالک نے نسل کے زیاں سے بچنے کےلئے اس کی اجازت دی ہے۔ (فتح الباري:582/4) جب سے جانوروں کے مالکوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ دودھ وغیرہ کے حصول کےلئے اچھی نسل کے جانوروں کی پیدائش ضروری ہے۔ تو اچھی نسل کے نروں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔بلکہ اب تو مصنوعی نسل کشی کا جدید طریقہ رائج ہوگیا ہے۔ اب اچھی نسل کے نراسی غرض سے پالے جاتے ہیں۔ ان پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اور ان سے حاصل ہونے والے مادے سے مصنوعی طور پر نسل کشی کی جاتی ہے۔ اگر اس کےلئے باقاعدہ قیمت یا اجرت کا تعین کرنے کی بجائے اکرام کے تحت لین دین کا طریقہ رائج ہوجائے۔ تو شرعا اس پراعتراض نہیں ہوگا۔ قدیم فقہاء اور مفسرین نے ملاپ کے عمل پر اجرت یا قیمت نہ لینے کی یہ وجہ ذکر کی ہے۔ کہ جس چیز کی اجرت لی جا رہی ہے۔ اس کی نہ مقدار کا تعین ہوسکتا ہے۔ نہ اس کی فراہمی یقینی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ غیر معلوم اور غیر معلوم اور غیر یقینی چیز کی اجرت ہوگی۔ جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اگر حرمت کی یہ وجہ صحیح تسلیم کرلی جائے۔ تو مصنوعی طریقوں کی وجہ سے اب یہ غیر معلوم اور غیر یقینی چیز نہیں رہی۔ جدید تکنیک کے ذریعے سے باقاعدہ متعین مقدار میں نر جانور کا مواد مادہ جانور کے رحم میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اس طرح تو اجرت کا بھی جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے۔ کہ خود مصنوعی نسل کشی شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے جواز پر تابیر (کھجور کے پھل دینے والے درختوں پر نرکھجور کا بورلاکر ڈالنا) کی حدیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو پیداوارحاصل کرنے کے اس مصنوعی طریقے کو آپ نے فطری طورپر ناپسند فرمایا اور اس سے روک دیا لیکن جب معلوم ہوا کہ اس سے کھجوروں کی پیدا وار کم ہوگئی ہے۔ تو آپ نے باقاعدہ اس کی اجازت دے دی۔ اس حدیث کی رو سے نرکا مواد مصنوعی طریقے سے مادہ تک پہنچانے کا طریقہ اختیار کرنے کی اجازت موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان تجارتی طریقوں کی بجائے فطری طریقوں کورائج کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ رفاہ عامہ کی غرض سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں تاکہ فطری طریقوں سے اعلیٰ نسل کے جانور حاصل ہوں اور لوگ تجارتی بنیادوں پراس کا انتطام کرنے کی مجبوری سے بچ جایئں۔ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کے حق کے حوالے سے جو اشارہ فرمایا ہے۔ وہ رفق بالحیوانات (جانوروں سے نرمی کا سلوک کرنا) کی بہترین مثال ہے۔ ان حقوق کو پورا کرنے کی بھی یہی صورت ہے کہ حکومتیں بڑے پیمانے پر اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں۔
اجارہ اور اجر دونوں کا بنیادی مفہوم اُجرت پر کچھ دینا ہے قرآن مجید نے اُجرت کے الفاظ حضرت شعیب اور موسیٰ کے باہمی معاہدے کے ساتھ ساتھ دودھ پلانے والی عورت کے حق کے لیے بھی استعمال کیے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے (فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ)
فقہاء نے اجارہ کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اجارہ کسی چیز کو اپنی ملکیت میں رکھتے ہوئے متعین عوض (اجرت) کے بدلے مقررہ مدت کے لیے اس کی منفعت دوسرے کو دینے کا نام ہے ۔ جس طرح گھر اور سواری کرائے پر دی جاتی ہے یا جس طر ح کوئی مزدور اُجرت پر اپنی خدمات فروخت کرتا ہے ۔ان فقہاء کے نزدیک پھل دار درخت یا انگور کی بیل کرائے پر نہیں چڑھائی جا سکتی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے درخت یا بیل کا پھل دوسرے کو ملتا ہے اور وہ منفعت نہیں ’’ایک چیز‘‘ ہے جس کی ملکیت دوسرے کو منتقل ہوتی ہے نیز حاصل کرنے والا اسے صرف کر ڈالتا ہے ۔اسی طرح ان کے نزدیک دودھ دینے والے جانور دودھ وغیرہ کے لیے کرائے پر نہیں دیے جا سکتے کیونکہ دودھ منفعت نہیں ’’ایک چیز‘‘ ہے جو دوسرے کی ملکیت میں جا کر صرف ہوتی ہے ۔(فقہ السنہ 4/119‘الفقہ الاسلامی وادلتہ:4/733)
امام ابن قیم کے نزدیک اجارے کی جو تعریف فقہاء نے کی ہے اس میں دودھ پلانے والی عورت کے حق الخدمت کو اجرت قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ قرآن نے اس کو ’’اجر‘‘ قرار دیا ہے اس لیے فقہاء کی بیان کردہ تعریف درست نہیں ۔فقہاء نے او اپنی وضع کر دہ تعریف پر اصرار کرتے ہوئے الٹا قرآن کے حکم کو خلاف قیاس قرار دے دیا ہے اور کئی قسم کی تاویلیں اختیار کی ہیں ۔مثلاً یہ کہ مرضعہ کو اُجرت دودھ کی نہیں بلکہ بچے کو گود میں لینے اور سینے سے لگانے وغیرہ کی دی جاتی ہے دودھ اصل مقصود ہیں نہیں وہ ویسے ہی بچے کو حاصل ہو جاتا ہے ۔ابن قیم یہ تاویلیں نقل کر کے کہتے ہیں کہ ’’ان حضرات نے حقائق کو اُلٹ دیا ہے ۔مقصود (یعنی بچے کا بطور غذا دودھ پینا) کو ذریعہ قرار دیا ہے اور ذریعے (گود میں اُٹھانا‘ سینے سے لگانا ) کو مقصد بنا دیا ہے ۔(اعلام الموقعین:2/21‘22) اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہی تعریفیں انسانی کا وش ہیں ۔ جس میں غلطی کا امکان موجود رہتا ہے اجارے کی تعریف کرتے ہوئے قرآن نے جہاں اجر کا لفظ لولا ہے ‘ تعریف وضع کرتے ہوئے اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ کیونکہ قیاس تو ہوتا ہی نص قرآن یا نص حدیث کی بنیاد پر ہے ۔ یہ بات کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے کہ خود تعریف کر کے قرآن کے کسی حکم کو خلاف قیاس قرار دے دیا جائے۔امام ابن قیم کے نزدیک یہ اصول کہ اجارہ منفعت کا معاہدہ ہے عین یا چیز کا نہیں سرے ہی سے غلط ہے ان کے اپنے الفاظ میں:’’ اس اصل پر نہ قرآن دلالت کرتا ہے نہ سنت نہ اجماع اور نہ قیاس صحیح ۔‘‘ ان کے نزدیک جس طرح اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے اس کا منافع سے استفادے کا معاہدہ اجارہ ہوتا ہے اسی طرح اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے ان اشیاء کے بارے میں معاہدہ بھی جو بتدریج اس سے حاصل ہوتی رہتی ہیں ‘اجارہ ہی کہلاتا ہے اسی طرح ان کے نقظۂ نظر کے مطابق درخت یا دودھ دینے والے جانور کو اجارہ (کرایہ) پر دینا درست ہوگا کیونکہ قرآن نے دودھ پلانے والی (مُرْضِعَه) کے حق خدمت کو خود’’اجر‘‘ قرار دیا ہے (اعلام الموقعین‘ فصل ا جارۃ الظئر‘ ص31۔32)
امام ابن حزم کا موقف اگرچہ وہ نہیں جو ابن قیم کا ہے لیکن اعتراض کی حد تک دونوں میں اتفاق نظر آتا ہے ابن حزم کہتے ہیں امام مالک دودھ کے لیے ایک یا دو بھیڑوں کو اجارے پر دینا نا جائز سمجھتے ہیں لیکن دودھ ہی کے لیے پورا ریوڑ اجارے پر دینے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ اس معاملے میں صحیح ترین قیاس یہ ہے کہ ’’دودھ کی غرض سے ایک بھیڑ کے اجرے کو رضاعت کے لیے دودھ کی تعریف باقی فقہاء کی وضع کی ہوئی تعریف کے بالمقابل قیاس صحیح اور قرآن مجید کے قریب تر ہے ۔جدید اسلامی بنکاری میں لیزنگ (Leasing) کو اجارہ قرار دیا جاتا ہے اور اس تصور کو مغربی ممالک کے بنکوں میں بھی وسیع پیمانے پر اختیار کیا گیا ہے ۔بنکوں کے طریق کار کے مطابق چیز قانونی طور مالک ہی کی ملکیت رہتی ہے استعمال کے حقوق البتہ لینے والے کو حاصل ہوتے ہیں اجرت یا کرایہ اس طرح مقرر کیا جاتا ہے کہ بنک اپنے اثاثے کی قیمت کچھ منافع سمیت مقرر مدت میں بالاقساط وصول کر لیتا ہے یہ مدت عام طور پر وہی ہوتی ہے جو چیز بنانے والے کے مطابق یا عرف عام میں اس چیز کی طبعی عمر پوری ہو جاتی ہے ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:رپورٹ اسلامی نظریاتی کونسل)کا روغیرہ کی لیزنگ اسلامی طریقے پر اسی صورت کے مطابق کی جا سکتی ہے اس کو بنک فنانس لیز کہتے ہیں ۔
اگر کوئی چیز کم یا درمیانی مدت کے لیے اجارہ پر استعمال کے لیے دی جائے اور جب ایک استعمال کرنے والے کے ساتھ معاہدے کی مدت ختم ہو جائے تو مالک چیز اس سے واپس نے کر کسی دوسرے کو استعمال کے لیے اجارے پر دے دے تو اس کو بنک استعمالی اجارہ کہتے ہیں ۔
ہمارے ہاں بنکوں میں جن معاہدوں کو اجارے پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے ان میں اجارے کی شرعی شرائط میں سے بعض کی مخالفت کی جا رہی ہے اجارے کی اسلامی صورت کے مطابق اُجرت یا کرائے پر دی گئی چیز کو لاحق ہوتے والے خطرات اور نقصانات کا ذمہ دار مالک ہوتا ہے ‘چیز لینے والے پر اس سلسلے میں کوئی بار نہیں ڈالا جا سکتا ۔ جبکہ آج کل بنک یہ ذمہ داری اجارے پر چیز لینے والے فریق پر ڈال دیتے ہیں ۔ اگر اس قباحت کو درست کر لیا جائے تو بنک کا معاہدہ اجارہ شرعاً درست ہوگا ورنہ نہیں۔اگر امام ابن قیم کی وسیع تر تعریف کو قبول کر لیا جائے (جو کہ در حقیقت صحیح ترین تعریف ہے ) تو اسلامی بنکاری کا دائرہ بہ آسانی زرعی میدانوں تک پھیلا یا جا سکتا ہے ۔امام الوداود نے ترتیب کی مناسبت سے کتاب الاجارہ کو کتاب البیوع کے وسط میں رکھا ہے تقریباً گیارہ ابواب میں ذکر کی گئی احادیث مبارکہ معاہدۂ اجارہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں ۔زیادہ تر احادیث اجرت پر مختلف خدمات(معلم کی خدمات ‘معالج کی خدمات وغیرہ) حاصل کرنے کے بارے میں ہیں ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح کی خدمات میں اجارہ جائز ہوگا اور کس طرح کی خدمات میں نا جائز ہوگا ان احادیث کےذریعے سے معاہدۂ اجارہ کے مختلف پہلوؤں پر کیا روشنی پڑتی ہے ۔ اس کی تفصیل احادیث کے مطالب کے ضمن میں آئے گی۔
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جانور کو جفتی کرانے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ۔ مویشی پالنے والے جانتے ہیں۔ کہ چراگاہوں میں ریوڑوں کے ریوڑ چرتے پھرتے ہیں اور فطری طریقے پر جانوروں کا ملاپ ہوتا رہتا ہے۔ اس عمل کی اجرت یا قیمت نہ طے ہوسکتی ہے، نہ اس کی اجرت وصول کرنے کی غرض سے جانوروں کو فطری ملاپ سے روکنا روا ہے۔ حدیث مبارک مادہ جانوروں کا حق ہے۔ کہ نر جانور ان سے ملاپ کریں۔ (صحیح مسلم، حدیث: 988) اسی چیز پردلالت کرتی ہے۔ رسول اللہﷺنے اس قیمت پر یا اجرت طلب کرنے پر منع فرمایا ہے۔ البتہ ایک صحابی نے جب اصرار سے پوچھا کہ ہم جب (طلب کرنے پر) اپنا نر جانور لے جاتے ہیں۔ تو وہاں ہمارا اکرام کیا جاتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔ تو آپﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ اس اجازت سے پتہ چلتا ہے کہ باقاعدہ خریدوفروخت سے ہٹ کر جانور رکھنے والوں کی سہولت کےلئے لین دین کا جو رواج موجود ہے۔ اسے ختم کرکے سسٹم کو خراب کرنا مقصود نہیں۔ چراگاہوں کو چھوڑ کر باقی جگہوں پر بعض اوقات نرجانور آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکتے۔ اس صورت کو سامنے رکھ کر امام مالک نے نسل کے زیاں سے بچنے کےلئے اس کی اجازت دی ہے۔ (فتح الباري:582/4) جب سے جانوروں کے مالکوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ دودھ وغیرہ کے حصول کےلئے اچھی نسل کے جانوروں کی پیدائش ضروری ہے۔ تو اچھی نسل کے نروں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔بلکہ اب تو مصنوعی نسل کشی کا جدید طریقہ رائج ہوگیا ہے۔ اب اچھی نسل کے نراسی غرض سے پالے جاتے ہیں۔ ان پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اور ان سے حاصل ہونے والے مادے سے مصنوعی طور پر نسل کشی کی جاتی ہے۔ اگر اس کےلئے باقاعدہ قیمت یا اجرت کا تعین کرنے کی بجائے اکرام کے تحت لین دین کا طریقہ رائج ہوجائے۔ تو شرعا اس پراعتراض نہیں ہوگا۔ قدیم فقہاء اور مفسرین نے ملاپ کے عمل پر اجرت یا قیمت نہ لینے کی یہ وجہ ذکر کی ہے۔ کہ جس چیز کی اجرت لی جا رہی ہے۔ اس کی نہ مقدار کا تعین ہوسکتا ہے۔ نہ اس کی فراہمی یقینی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ غیر معلوم اور غیر معلوم اور غیر یقینی چیز کی اجرت ہوگی۔ جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اگر حرمت کی یہ وجہ صحیح تسلیم کرلی جائے۔ تو مصنوعی طریقوں کی وجہ سے اب یہ غیر معلوم اور غیر یقینی چیز نہیں رہی۔ جدید تکنیک کے ذریعے سے باقاعدہ متعین مقدار میں نر جانور کا مواد مادہ جانور کے رحم میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اس طرح تو اجرت کا بھی جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے۔ کہ خود مصنوعی نسل کشی شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے جواز پر تابیر (کھجور کے پھل دینے والے درختوں پر نرکھجور کا بورلاکر ڈالنا) کی حدیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو پیداوارحاصل کرنے کے اس مصنوعی طریقے کو آپ نے فطری طورپر ناپسند فرمایا اور اس سے روک دیا لیکن جب معلوم ہوا کہ اس سے کھجوروں کی پیدا وار کم ہوگئی ہے۔ تو آپ نے باقاعدہ اس کی اجازت دے دی۔ اس حدیث کی رو سے نرکا مواد مصنوعی طریقے سے مادہ تک پہنچانے کا طریقہ اختیار کرنے کی اجازت موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان تجارتی طریقوں کی بجائے فطری طریقوں کورائج کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ رفاہ عامہ کی غرض سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں تاکہ فطری طریقوں سے اعلیٰ نسل کے جانور حاصل ہوں اور لوگ تجارتی بنیادوں پراس کا انتطام کرنے کی مجبوری سے بچ جایئں۔ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کے حق کے حوالے سے جو اشارہ فرمایا ہے۔ وہ رفق بالحیوانات (جانوروں سے نرمی کا سلوک کرنا) کی بہترین مثال ہے۔ ان حقوق کو پورا کرنے کی بھی یہی صورت ہے کہ حکومتیں بڑے پیمانے پر اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: چونکہ مادہ کے حاملہ اور غیر حاملہ ہونے دونوں کا شبہ ہے، اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) forbade (taking hire for) a stallion's covering.