Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Performing Ghusl For The Friday Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
345.
سیدنا اوس بن اوس ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا فرماتے تھے ”جس نے جمعہ کے روز غسل کیا اور خوب اچھی طرح کیا اور جلدی آیا اور (خطبہ میں) اول وقت پہنچا، پیدل چل کے آیا اور سوار نہ ہوا، امام سے قریب ہو کر بیٹھا اور غور سے سنا اور لغو سے بچا، تو اس کے لیے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور قیام کے عمل کا ثواب ہے۔“
تشریح:
یہ حدیث جامع ترمذی (496) اورسنن ابن ماجہ (1087) میں بھی وارد ہے۔ امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ شیخ البانی نے ’’صحیح،، کہا ہے۔ (صحیح أبوداود، حدیث: 333) شروح حدیث میں وارد ہے کہ اس حدیث کے الفاظ (غَسّلَ واغتسل) میں (غسل) کو حرف ’’س،، کی تخفیف اورتشدید دونوں سےپڑھا گیا ہے۔ اور اس کے کئی معانی ذکر کیے گئے ہیں۔ ایک تو یہی تاکید ی معنی ہے جو راقم نے اختیار کیا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ آدمی نےپہلے خطمی، صابن، یا شیمپووغیرہ استعمال کیا ہو بعدازاں بہایا ہو۔ تیسرا یہ کہ جس نے اپنی زوجہ سے مباشرت کی اور اس پر بھی غسل لازم کر دیا ہو۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ اس طرح انسان نفسانی اور جذباتی طور پربہت پرسکون ہو جاتا ہے او رذہن پراگندہ نہیں ہوتا اورعبادت میں یکسورہتا ہے۔واللہ أعلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا اوس بن اوس ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا فرماتے تھے ”جس نے جمعہ کے روز غسل کیا اور خوب اچھی طرح کیا اور جلدی آیا اور (خطبہ میں) اول وقت پہنچا، پیدل چل کے آیا اور سوار نہ ہوا، امام سے قریب ہو کر بیٹھا اور غور سے سنا اور لغو سے بچا، تو اس کے لیے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور قیام کے عمل کا ثواب ہے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث جامع ترمذی (496) اورسنن ابن ماجہ (1087) میں بھی وارد ہے۔ امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ شیخ البانی نے ’’صحیح،، کہا ہے۔ (صحیح أبوداود، حدیث: 333) شروح حدیث میں وارد ہے کہ اس حدیث کے الفاظ (غَسّلَ واغتسل) میں (غسل) کو حرف ’’س،، کی تخفیف اورتشدید دونوں سےپڑھا گیا ہے۔ اور اس کے کئی معانی ذکر کیے گئے ہیں۔ ایک تو یہی تاکید ی معنی ہے جو راقم نے اختیار کیا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ آدمی نےپہلے خطمی، صابن، یا شیمپووغیرہ استعمال کیا ہو بعدازاں بہایا ہو۔ تیسرا یہ کہ جس نے اپنی زوجہ سے مباشرت کی اور اس پر بھی غسل لازم کر دیا ہو۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ اس طرح انسان نفسانی اور جذباتی طور پربہت پرسکون ہو جاتا ہے او رذہن پراگندہ نہیں ہوتا اورعبادت میں یکسورہتا ہے۔واللہ أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اوس بن اوس ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو شخص جمعہ کے دن نہلائے اور خود بھی نہائے۱؎ پھر صبح سویرے اول وقت میں (مسجد) جائے، شروع سے خطبہ میں رہے، پیدل جائے، سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر غور سے خطبہ سنے، اور لغو بات نہ کہے تو اس کو ہر قدم پر ایک سال کے روزے اور شب بیداری کا ثواب ملے گا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی اپنی بیوی سے صحبت کی اور اس پر بھی غسل لازم کر دیا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aws ibn Aws ath-Thaqafi:I heard the apostle of Allah (ﷺ) say: If anyone makes (his wife) wash and he washes himself on Friday, goes out early (for Friday prayer), attends the sermon from the beginning, walking, not riding, takes his seat near the imam, listens attentively, and does not indulge in idle talk, he will get the reward of a year's fasting and praying at night for every step he takes.