Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: Regarding The Judge Who Is Mistaken)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3573.
جناب (عبداللہ بن بریدہ) بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک جنت میں ہے اور دو آگ میں۔ جنت میں جانے والا وہ ہے جس نے حق پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا، اور جس نے حق پہچانا اور پھر فیصلے میں ظلم کیا تو وہ آگ میں ہے، اور جس نے جاہل ہوتے ہوئے لوگوں کے فیصلے کیے وہ بھی آگ میں ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس موضوع میں یہ حدیث صحیح ترین ہے۔ یعنی ابن بریدہ کی حدیث کہ قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں۔
تشریح:
فائدہ: جانتے بوجھتے حق کے خلاف فیصلہ دینا اور جاہل ہوتے ہوئے لوگوں میں فیصلے کرنے بیٹھ جانا، دونوں صورتوں میں اپنے آپ کو جہنم میں جھونکنا ہے۔ لہذا واجب ہے کہ یہ منصب اصحاب علم اور اصحاب عزیمت ہی کے سپرد کیا جائے اور وہ بھی جرءت سے کام لیں اور جنت کے حقدار بنیں جبکہ ان لوگوں کے پس منظرمیں رہنے سے ظالم ظلم کرتے ہیں۔ اور جہالت کا غلبہ اور اس کی اشاعت ہوتی ہے۔
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
جناب (عبداللہ بن بریدہ) بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک جنت میں ہے اور دو آگ میں۔ جنت میں جانے والا وہ ہے جس نے حق پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا، اور جس نے حق پہچانا اور پھر فیصلے میں ظلم کیا تو وہ آگ میں ہے، اور جس نے جاہل ہوتے ہوئے لوگوں کے فیصلے کیے وہ بھی آگ میں ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس موضوع میں یہ حدیث صحیح ترین ہے۔ یعنی ابن بریدہ کی حدیث کہ قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: جانتے بوجھتے حق کے خلاف فیصلہ دینا اور جاہل ہوتے ہوئے لوگوں میں فیصلے کرنے بیٹھ جانا، دونوں صورتوں میں اپنے آپ کو جہنم میں جھونکنا ہے۔ لہذا واجب ہے کہ یہ منصب اصحاب علم اور اصحاب عزیمت ہی کے سپرد کیا جائے اور وہ بھی جرءت سے کام لیں اور جنت کے حقدار بنیں جبکہ ان لوگوں کے پس منظرمیں رہنے سے ظالم ظلم کرتے ہیں۔ اور جہالت کا غلبہ اور اس کی اشاعت ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنتی اور دو جہنمی، رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہو گا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے۔“ اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ یعنی ابن بریدہ کی ”تین قاضیوں“ والی حدیث اس باب میں سب سے صحیح روایت ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Buraydah ibn al-Hasib: The Prophet (ﷺ) said: Judges are of three types, one of whom will go to Paradise and two to Hell. The one who will go to Paradise is a man who knows what is right and gives judgment accordingly; but a man who knows what is right and acts tyrannically in his judgment will go to Hell; and a man who gives judgment for people when he is ignorant will go to Hell.