Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: Regarding The Judge Who Is Mistaken)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3574.
سیدنا عمرو بن العاص ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور خوب سوچ بچار اور اجتہاد سے کام لے اور درست نتیجے پر پہنچے تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے، اور جب کوئی خوب سوچ بچار اور اجتہاد سے کام لے اور اس سے خطا ہو جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔“ (یزید بن عبداللہ بن الہاد نے کہا) میں نے یہ روایت ابوبکر بن حزم کو بیان کی تو انہوں نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے ایسے ہی روایت کی ہے۔
تشریح:
فائدہ: یہ خوش خبری اس قاضی کے لئے ہے۔ جو صاحب علم ہے اجتہاد کرتا ہے۔ اس منصب کی ذمہ داریوں سے خوب واقف ہے۔ اللہ سے ڈرتا ہے۔ اور اس عہدے کا طلب گار نہیں۔
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا عمرو بن العاص ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور خوب سوچ بچار اور اجتہاد سے کام لے اور درست نتیجے پر پہنچے تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے، اور جب کوئی خوب سوچ بچار اور اجتہاد سے کام لے اور اس سے خطا ہو جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔“ (یزید بن عبداللہ بن الہاد نے کہا) میں نے یہ روایت ابوبکر بن حزم کو بیان کی تو انہوں نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے ایسے ہی روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ خوش خبری اس قاضی کے لئے ہے۔ جو صاحب علم ہے اجتہاد کرتا ہے۔ اس منصب کی ذمہ داریوں سے خوب واقف ہے۔ اللہ سے ڈرتا ہے۔ اور اس عہدے کا طلب گار نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب حاکم (قاضی) خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور درستگی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے، اور جب قاضی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور خطا کر جائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر ہے۱؎۔“ راوی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے اسی طرح ابوسلمہ نے ابوہریرہ ؓ کے واسطہ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی جب حاکم یا قاضی نے فیصلہ کرنے میں غور و خوض کر کے قرآن و حدیث اور اجماع سے اس کا حکم نکالا تو اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اس کے لیے دوگنا اجر و ثواب ہے، اور اگر فیصلہ غلط ہے، تب بھی اس پر اس کو ایک ثواب ہے، اور کوشش کے بعد غلطی اور چوک ہونے پر وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے، اسی طرح وہ مسئلہ جو قرآن و حدیث اور اجماع امت میں صاف مذکور نہیں اگر اس کو کسی مجتہد عالم نے قرآن اور حدیث میں غور کر کے نکالا اور حکم صحیح ہوا تو وہ دوگنے اجر کا مستحق ہو گا، اور اگر مسئلہ میں غلطی ہوئی تو ایک اجر کا مستحق ہوا، لیکن شرط یہ ہے کہ اس عالم میں زیر نظر مسئلہ میں اجتہاد کی اہلیت و استعداد ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that `Amr bin Al-`As said "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'If a judge passes a judgment having exerted himself to arrive at what is correct, and he is indeed correct, he will have two rewards. If he passes judgment having exerted himself to arrive at what is correct, but it is incorrect, he will have one reward'". I narrated it to Abu Bakr bin Hazm and he said: "This is what Abu Salamah narrated to me from Abu Hurairah (RA).