Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: How to Judge)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3582.
سیدنا علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن کا قاضی بنا کر روانہ فرمایا تو میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! میں نوعمر ہوں اور مجھے فیصلہ کرنے کا علم نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یقیناً ﷲ تعالیٰ تمہارے دل کو ہدایت دے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا۔ جب مقدمے کے دو فریق تمہارے سامنے بیٹھیں تو اس وقت تک ہرگز فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے سے سن نہ لینا جیسے کہ پہلے سے سنا ہو۔ بلاشبہ یہی چیز زیادہ لائق ہے کہ فیصلہ تمہارے لیے واضح ہو جائے۔“ سیدنا علی ؓ کہتے ہیں: چنانچہ میں وہاں قاضی بنا رہا یا (فرمایا) مجھے اس کے بعد فیصلہ کرنے میں کوئی تردد نہیں ہوا۔
تشریح:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ لیکن یہ واقعہ کچھ اختصار کے ساتھ سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ موجودہ روایت کا زائد حصہ یہ ہے۔ کہ فیصلہ دونوں فریقوں کے سن لینے کے بعد کرنا چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور دوسری کئی روایات سے ثابت ہے۔ البتہ اگر کوئی فریق طلب کرنے پر حاضر نہ ہو۔ اس کے پاس کوئی عذر بھی نہ ہواورواضح ہوجائے کہ وہ قاضی اور عدالت کا سامنا کرنے سے عمدا ًگریز کر رہا ہے۔ تو قاضی انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کی غیرحاضر ی میں فیصلہ سنا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
تمہید باب
آیندہ چند ابواب میں پیش کردہ احادیث میں فیصلہ کرنے کے طریقوں کے بارے میں بہت عمدہ اصول بتائے گئے ہیں۔حقائق تک پہنچنے کےلئے ضروری ہے۔کہ جج اللہ کی طرف رجوع کر کے فہم وفراست کی دعا مانگے کچی بات نہ کرے۔فیصلہ حتی الواسع یقین حاصل ہونے اور پختہ رائے قائم کرنے کے بعد کرے۔ اسے یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ اس کے فیصلے سے کسی کے لئے دوسرے کاحق حلال نہیں ہوتا۔اوراگرقاضی دیکھے کے معاملہ کسی بھی طرح واضح نہیں ہوسکتا۔ دونوں کو صلح پر آمادہ کر نے کی کوشش کرے۔قضا کا یہ سنہری اصول بھی اسلام نے دیا ہے کہ قاضی کویکسوئی سے فیصلہ کرنا چاہیے۔طیش ۔غم ۔تفکرات۔یاایسی کیفیت میں فیصلہ نہیں کرناچاہیے۔جس میں یکسوئی حاصل نہیں ہو سکتی۔
سیدنا علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن کا قاضی بنا کر روانہ فرمایا تو میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! میں نوعمر ہوں اور مجھے فیصلہ کرنے کا علم نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یقیناً ﷲ تعالیٰ تمہارے دل کو ہدایت دے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا۔ جب مقدمے کے دو فریق تمہارے سامنے بیٹھیں تو اس وقت تک ہرگز فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے سے سن نہ لینا جیسے کہ پہلے سے سنا ہو۔ بلاشبہ یہی چیز زیادہ لائق ہے کہ فیصلہ تمہارے لیے واضح ہو جائے۔“ سیدنا علی ؓ کہتے ہیں: چنانچہ میں وہاں قاضی بنا رہا یا (فرمایا) مجھے اس کے بعد فیصلہ کرنے میں کوئی تردد نہیں ہوا۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ لیکن یہ واقعہ کچھ اختصار کے ساتھ سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ موجودہ روایت کا زائد حصہ یہ ہے۔ کہ فیصلہ دونوں فریقوں کے سن لینے کے بعد کرنا چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور دوسری کئی روایات سے ثابت ہے۔ البتہ اگر کوئی فریق طلب کرنے پر حاضر نہ ہو۔ اس کے پاس کوئی عذر بھی نہ ہواورواضح ہوجائے کہ وہ قاضی اور عدالت کا سامنا کرنے سے عمدا ًگریز کر رہا ہے۔ تو قاضی انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کی غیرحاضر ی میں فیصلہ سنا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے (قاضی) بنا کر بھیج رہے ہیں جب کہ میں کم عمر ہوں اور قضاء (فیصلہ کرنے) کا علم بھی مجھے نہیں ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے دل کی رہنمائی کرے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا، جب تم فیصلہ کرنے بیٹھو اور تمہارے سامنے دونوں فریق موجود ہوں تو جب تک تم دوسرے کا بیان اسی طرح نہ سن لو جس طرح پہلے کا سنا ہے فیصلہ نہ کرو کیونکہ اس سے معاملے کی حقیقت واشگاف ہو کر سامنے آ جائے گی۔“ وہ کہتے ہیں: تو میں برابر فیصلہ دیتا رہا، کہا: پھر مجھے اس کے بعد کسی فیصلے میں شک نہیں ہوا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn Abu Talib (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) sent me to the Yemen as judge, and I asked: Apostle of Allah (ﷺ), are you sending me when I am young and have no knowledge of the duties of a judge? He replied: Allah will guide your heart and keep your tongue true. When two litigants sit in front of you, do not decide till you hear what the other has to say as you heard what the first had to say; for it is best that you should have a clear idea of the best decision. He said: I had been a judge (for long); or he said (the narrator is doubtful): I have no doubts about a decision afterwards.