Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: Regarding reconciliation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3594.
سیدنا ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”مسلمانوں کا آپس میں صلح کر لینا جائز ہے (یعنی یہ نافذ ہو گی)۔“ احمد (احمد بن عبدالواحد) نے مزید کہا: ”سوائے ایسی صلح کے جو کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام بنائے۔“ سلیمان بن داود نے اضافہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔“
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”مسلمانوں کا آپس میں صلح کر لینا جائز ہے (یعنی یہ نافذ ہو گی)۔“ احمد (احمد بن عبدالواحد) نے مزید کہا: ”سوائے ایسی صلح کے جو کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام بنائے۔“ سلیمان بن داود نے اضافہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمانوں کے درمیان مصالحت جائز ہے۔“ احمد بن عبدالواحد نے اتنا اضافہ کیا ہے: ”سوائے اس صلح کے جو کسی حرام شے کو حلال یا کسی حلال شے کو حرام کر دے۔“ اور سلیمان بن داود نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان اپنی شرطوں پر قائم رہیں گے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: لیکن ایسی شرط سے بچیں جو شریعت میں ناجائز ہے، اور جس سے آئندہ خرابی واقع ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): The Prophet (ﷺ) said: Conciliation between Muslims is permissible. The narrator Ahmad added in his version: "except the conciliation which makes lawful unlawful and unlawful lawful". Sulayman ibn Dawud رحمۃ اللہ علیہ added: The Apostle of Allah (ﷺ) said: Muslims are on (i.e. stick to) their conditions.